Featured post

Who is Nemrah Ahmed ?

"Nemrah Ahmed, an internationally acclaimed Pakistani novelist with ten books on her record. Nemrah Ahmed or Nimra Ahmed is one o...

Naml As I See It : by Nemrah Ahmed


Download Namal As I See It by Nemrah Ahmed Pdf file

نَمل (میری نظر میں) : نمرہ احمد
نمل ایک یادگار ناول تھا۔ مگر تلخ بھی تھا۔ اس میں کچھ کڑوا سا تھا۔ جو چاکلیٹ میں ہوتا ہے اور اس کی ساری مٹھاس اور خوبصورت ریپر کے باوجود آخر میں حلق میں محسوس ہوتا تھا۔ ہر ناول، میرا ماننا ہے کہ ‘ اپنے آپ کو خود لکھتا ہے۔ سب کا ایک الگ انداز اور ایک الگ بیانیہ ہوتا ہے۔ جیسے حالم اور نمل بالکل مختلف بیانیے کے حامل ہیں۔ مجھے یاد ہے جب نمل کی پہلی قسط شائع ہوئی تو مجھے کہا گیا سعدی تو بالکل جہان جیسا ہے۔ میں جانتی تھی کہ آخری قسط تک اس بات کو کوئی بھولے سے بھی یاد نہیں رکھے گا۔مگر رائٹر کو ان باتوں کو اچھے سے پی کر آگے بڑھنا ہوتا ہے کیونکہ یہ برا منانے والی باتیں نہیں ہوتیں۔ قارئین اگر آپ کے دو ناولز میں مماثلت ڈھونڈتے ہیں تو یہ بھی ان کی محبت کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ وہ نمل کی پہلی قسط کا جنت کے پتے کی آخری قسط سے موازنہ کر رہے تھے۔پیارے قارئین ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔ وہ ختم ہونے والے ناول کی آخری قسط کا نئے ناول کی پہلی قسط سے موازنہ کرتے ہیں۔ مگر لکھنے والے زیادہ بول کے جواب نہیں دیتے۔ ان کے لکھے ہوئے کام کو بولنا چاہیے۔ میں اس وقت یہ جانتی تھی کہ نمل جنت کے پتے سے زیادہ مضبوط ناول ہے‘ جیسے میں اب جانتی ہوں کہ حالم بالکل مختلف ناول ہے۔ اس لیے میں دفاعی کلمات میں وقت صرف نہیں کروں گی۔ نمل ایک پلاٹ بیسڈ ناول نہیں تھا۔ کریکٹر بیسڈ تھا۔ یعنی ایسے ناولز کو اس کا پلاٹ اور پلاٹ کی پہیلیاں نہیں چلاتیں۔ جیسے جنت کے پتے میں کردار پلاٹ کے تابع تھے۔ یا جیسے حالم کریکٹر بیسڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پلاٹ بیسڈ بھی ہے۔نمل ایسا ناول تھا جس کو کردار چلاتے ہیں۔ وہ کہانی سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ اتنے سارے مختلف کرداروں کو ایک ہی جگہ جمع کر کے ان کو آپس میں الجھانا اور سلجھانا بہت مشکل مگر بہت دلچسپ تھا لیکن آخر میں میں نے یہ سیکھا کہ میں مسٹری لکھنے کو سسپنس سے زیادہ انجوائے کرتی ہوں۔ مسٹری یعنی جس میں آپ کو نہیں پتہ کہ راز کیا ہے (حالم‘ جنت کے پتے)۔ اور سسپنس وہ جس میں آپ کو معلوم ہے مگر کرداروں کو نہیں معلوم(جیسے نمل)۔ مجھے ناول میں متعدد دفعہ ادارے اور قارئین کی طرف سے ان کی مرضی کا اختتام اور واقعات لکھنے کا کہا گیا مگر میں ایسے نہیں کر سکی کیونکہ میری اولین ذمہ داری میری کہانی کے ساتھ جڑی ہے۔ اور اس کو ایمانداری سے لکھنے کا یہی تقاضہ ہے کہ کرداروں کی زندگی کے فیصلے میرٹ پہ کیے جائیں اور سفارشوں کو نظر انداز کیا جائے !
اب آتے ہیں نمل کے سوالوں کی جانب ۔ میں ان سوالوں کو چنا ہے جو عموی ہیں ‘ نہ کہ خصوصی۔ تاکہ ان میں میں تمام وقعات کو کور کر سکوں۔
سوال: نمل میں کردار ’’گرے‘‘(سرمئی) تھے۔ آپ نے کیوں سرمئی قسم کے لوگوں پر لکھنا شروع کیا؟ کیا ا س لئے کہ سرمئی ہوناہی ہماری حقیقت ہے؟ جواب : شاید اس لیے بھی کہ چونکہ ہم سب سرمئی ہی ہیں تو اس میں لوگوں کو سکھانے اور اپنی اصلاح کرنے کا مارجن زیادہ ہے۔ فرشتوں پہ لکھو تو لوگ خوش ہوتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم ان جیسے نہیں بن سکتے۔ شیطانوں کو پڑھنا بھی لوگ انجوائے کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم ان جیسے ہیں ہی نہیں۔ اس لیے آپ کو اچھوں کو بہت اچھا نہیں دکھانا ہوتا اور بروں کی اچھائی بھی دکھانی پڑتی ہے۔ تاکہ وہ فرشتے لگیں نہ شیطان بلکہ’’ انسان‘‘ لگیں۔ اور وہی کردار دل پہ جمی برف پگھلاتے ہیں۔
سوال:اس بات میں کس قدر حقیقت ہے کہ انتقام کا چکر کبھی ختم نہیں ہوتا؟ جواب : یہ تو ایک سماجی حقیقت ہے۔ قبائلی علاقوں میں قتل برائے قتل ہوتے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ ان گنت واقعات ہیں‘ ان گنت حالات ہیں...معافی یا انصاف‘ ان دونوں میں سے کسی ایک کو جب تک ہم نہیں تھامیں گے‘ ہم اس چکر کو نہیں توڑ سکتے۔
سوال: کیا واقعی انسان کی برائی، گھوم پھر کر اس کے پاس لوٹ آتی ہے؟ جواب :سرکشی اور والدین کی نافرمانی‘ یہ دونوں برائیاں تو ضرور آتی ہیں۔ اور باقی بھی ہر عمل کا نتیجہ تو ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ہمیں ہمارے اعمال کے شر سے محفوظ رکھے تاکہ وہ لوٹ کے ہم سے ملاقات کرنے کبھی نہ آئیں۔ آمین۔
سوال:نمل میں خواتین پردہ کیوں نہیں کرتی تھیں؟ جواب :کیونکہ نمل جس ملک کی کہانی تھا وہاں خواتین کی اکثریت پردہ نہیں کرتی۔ پردے کے موضوع پہ میں نے ایک ناول پہلے ہی لکھا ہے۔ مگر میں ہر ناول میں با پردہ لڑکیاں اس لیے نہیں متعارف کرواتی کیونکہ میرا ماننا ہے کہ جو لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں وہ بری نہیں ہوتیں۔ مجھے ان کی کہانیاں بھی لکھنی ہیں۔ اور چونکہ یہ ایک لکھی ہوئی چیز ہے اس لیے اس میں کرداروں کے اسکیچ کو وضاحت سے مختلف بنا کے لکھنا پڑتا ہے اور اگر میری ہر ہیروئین ’’اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے گی‘‘ تو میرے پاس اس عمل کو دکھانے لے لیے مزید الفاظ نہیں بچیں گے۔ یکسانیت آجائے گی اور سب لڑکیاں ایک طرح لگیں گی۔ آپ پردے کے بارے میں میرے خیالات سے واقف ہیں‘ اس لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ یہ کوئی ٹی وی ڈرامہ نہیں ہے تو بے فکر رہیے‘ اس طرح لکھنے سے کسی بھی قسم کی بے پردگی نہیں ہو رہی ۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے اب میں کوشش کرتی ہوں کہ ہیرو آستین فولڈ نہ کرے ورنہ جہان‘ جہان شروع ہو جاتا ہے۔ چونکہ میں ایک رائٹر پہلے اور ایک مبلغ بعد میں ہوں اس لیے مجھے کری ایٹو رائٹنگ کی نزاکتوں کا خیال رکھ کے بہت تکنیک کے ساتھ لکھنا ہوتا ہے۔
سوال:ہم کیسے قرآن کی پہیلیاں حل کر سکتے ہیں؟ جواب :کوئی ایک بات قرآن سے تھام لیں۔ کوئی ایک عام سی بات جو آپ کو سمجھ آتی ہے اور اس پہ زور و شور سے عمل شروع کر دیں۔ جلد آپ کو دوسری بات خود مل جائے گی اور اس سے تیسری اور یہ ایک لڑی ہے جس کو جس لمحے آپ نے توڑا‘ یہ رک جائے گی۔ سب کے لیے رک جاتی ہے لیکن ہمیں اس کو پھر سے شروع کرنا ہوتا ہے۔
سوال:کیا قرآن کو سمجھنے کے لیے کسی استاد کا ہونا ضروری ہے؟ جواب :میں کوئی اسکالر نہیں ہوں مگر اپنے ذاتی تجربے سے اتنا کہہ سکتی ہوں کہ پہلی دفعہ تفسیر پڑھنے کے لیے تو ہوتی ہے ضرورت اس لیے کہ قرآن پڑھنے کے دوران سوالات ذہن میں آتے ہیں اور ان کے جوابات کسی سے تو لینے ہوں گے۔ اچھے استاد کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کو اللہ سے جوڑے اور خود سے نہ جوڑے۔ اس پیمانے کو ذہن میں رکھ کے تعلیم حاصل کریں۔ لیکن اگر کوئی استاد نہیں ملتا تو بھی تفسیر کی کتابوں سے پڑھتے رہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ استاد چاہتے ہوں اور استاد آپ کو نہ ملے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
سوال:کیا آپ ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، آرمی آفیسر ہیں، عالمہ ہیں یا ڈی کوڈر ہیں رائٹر ہونے کے ساتھ؟ جواب :شکریہ آپ کے اتنے اچھے گمان کے لیے‘ مگر نہیں‘ میں ایک رائٹر ہی ہوں۔
سوال:آپ کے ناولز کی ریسرچ اور کاوش بتاتی ہے کہ کسی ایک انسان کے بس میں اتنا لکھنا ممکن نہیں۔۔نمرہ سے میرا یہی سوال ہے کہ کیا لکھنے میں وہ کسی اور کی بھی مدد لیتی رہی ہیں؟ جواب :میں ریسرچ خود کرتی ہوں اور اس میں بہت سے لوگوں کی مدد لیتی ہوں یعنی ان سے سوالات پوچھتی رہتی ہوں۔بہت کچھ پرھنا پڑتا ہے۔ نمل کے لیے نوے کی دہائی کے کتنے ہی لیگل کیسز پڑھے تھے مگر میری سب سے بڑی معاون ایڈمن گل ہیں جو ایسے ایسے طریقوں سے میرا کام آسان کرتی ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
سوال:آپ نے جس طرح قرآن کی تفسیر کو کہانیوں میں ڈھالا تو یہ کیا آپ کی اپنیinterpretations ہیں؟ جواب :نہیں اپنی مرضی سے تو کوئی تفسیر نہیں کر سکتا۔ جو مختلف اسکالرز سے سنتے ہیں اسی کو اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں۔ باقی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو قرآن پہ غور و فکر کے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے‘ اسی طرح اپنی عقل استعمال کر کے میں بھی آیات کو عام زندگیوں پہ اپلائی کر کے ان سے سبق نکالنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یاد رہے‘ میں نئے نئے معانی کبھی بھی نہیں نکالتی۔ میں ہمیشہ نئے اسباق نکالتی ہوں۔
سوال:نمل بہت ڈرامائی طرز کا ناول تھا، یوسفز اور کاردارز کے درمیان تمام پلانز،سازشیں جیسے کڈنیپنگ اور سروائیونگ کے منظر، آپ کے خیال میں عام درمیانے درجے کے پاکستانی شہریوں کی زندگی میں ایسا ہوتا ہے؟ جواب : نہیں۔ یہ ایک ڈرامائی ناول ہی تھا نا۔ اچھا میں نے محسوس کیا ہے کہ جب میں کہتی ہوں یہ ڈرامائی ناول ہے تو لوگ سمجھتے ہیں اس کا مطلب فلمی اور غیر حقیقی ہونا ہوتا ہے۔ نہیں۔ ڈراماٹک کا مطلب ہے کہ آپ نے سین کو تبدیلی سے شروع کرنا ہے‘ (یعنی سین کے آغاز میں کوئی فون آتا ہے‘ یا کوئی شخص کسی پرسکون سے ماحول میں نیا وارد ہوتا ہے) ناول سین بائے سین آگے بڑھے گا اور ناول ایکشن سے زیادہ مکالموں سے آگے بڑھے گا اور سب سے بڑھ کے ‘ آپ کو تمام چیزوں کو ایک ہی منظر میں اکٹھا کرنا ہوگا۔ جیسے داستان طرز کے ناولز میں ہم دکھا سکتے ہیں کہ لڑکی کو ایک خبر ملتی ہے‘ پھر اگلے دن اس سے کوئی ملنے آتا ہے اور چند دن یونہی گزر جاتے ہیں اور ایک دن اچانک سے کچھ اور ہو جاتا ہے۔ مگر ڈرامائی ناول میں مجھے ان تمام واقعات کو ایک سین میں اکٹھا کرنا ہے۔ سین فون کی گھنٹی سے شروع ہو گا اور جب وہ لڑکی اس خبر کو سن رہی ہو گی اس سے کئی ملنے آئے گا اور وہ اس سے اپنی جذباتی کیفیت بیان کرے گی اور سین کے آخر میں یا اگلے سین میں وہ دوسرا واقعہ رونما ہو جائے گا۔ اس لیے بہت سے واقعات ایک ہی فریم میں ہو رہے ہوتے ہیں۔ مصحف میں ایسا نہیں تھا۔ اس کا بیانیہ دوسری طرح کا تھا۔
سوال:نمل میں بتائی گئی اچھی باتوں پر آپ کا اپنا کس قدر عمل ہے؟ جواب : میں لکھتی صرف وہی باتیں ہوں جن پہ یا تو عمل کر رہی ہوں یا پھر کرنا چاہتی ہوں۔ میں دوسرے ٹاپک کو چھیرتی ہی نہیں ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ تبلیغ وہی پر اثر ہے جو آپ خود کو سمجھانے کے لیے کرتے ہیں۔پہلے خود کو اور پھر دوسروں کو۔
سوال:کیا نوشیرواں کا سعدی سے معافی مانگ لینا بہت نہیں تھا کیا ضروری تھا کہ اسے یہ عمر بھر کی سزا دی جاتی؟؟؟ اگر ہاں تو اس سے اسلام کا ایک سخت قسم کا وژن نظر آتا ہے۔ ٹھیک ہے وہ غلط تھا مگر سعدی اسے معاف کر دیتا وہ شرمندہ تھا اور بہتری کی طرف پلٹ سکتا تھا۔ جواب : جتنا میں سعدی کو سمجھی ہوں‘ وہ اس سب کے بعد شیرو کو صرف تب معاف کر سکتا تھا اگر شیرو شرمندگی دکھاتا۔ یاد رکھئے‘ پبلک کے سامنے کیے گئے گناہوں کا مداوا بھی پبلک میں کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکے کی آپ ساری زندگی خراب کر کے اس کے خاندان کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہو‘ اس کے بعد میں یہ نہیں دکھا سکتی کہ اس کو معاف کر دیا جائے۔ نوشیرواں نے جرم کیا تھا۔ جرم جب تک پکڑا نہ جائے اس پہ توبہ ہوتی ہے اور جب پکڑا جائے تو حد قائم ہوتی ہے۔ نوشیرواں کا قانونی طور پہ معافی نامہ بھی تب سائن ہو سکتا تھا جب وہ اعتراف کرتا۔ جب اس نے اعتراف ہی نہیں کیا تو اس کو کس بات کے لیے معاف کیا جاتا؟ یہی ہمارے معاشرے میں کرپشن کی اصل وجہ ہے۔ ہم ہمدردی میں آ کر مجرموں کو ’’خیر ہے اب یہ ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ کہہ کر معاف کر کے اگلا چانس دینے کے عادی ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جس میں اپنا جرم اون کرنے کی ہمت نہیں‘ وہ اس کو خود سے نکالے گا کیسے؟
سوال: جھوٹ جب مخالف بولے تو بری بات مگر جب مرکزی مثبت کردار بولیں تو اس کی توجیہات ہیں؟ جواب : اور کیا آپ نے یہ نہیں نوٹ کیا کہ نمل میں مثبت کرداروں کے آدھے سے زائد مسائل ہی ایک دوسرے سے باتیں چھپانے کے باعث پیدا ہوتے تھے؟ میں فرشتے نہیں دکھا سکتی نا‘ انسان ہی دکھانے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ آخر میں پہنچنے تک وہ سب اس بات کو سیکھ لیتے ہیں کہ ایک دوسرے سے باتیں چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال جھوٹ پہ میں نے حالم لکھا ہے‘ اور اس میں یہ مسئلہ زیادہ وضاحت سے ہے۔
سوال: ہاشم کی والدہ بہت بری ہو سکتی تھی۔۔مگر کیا یہ طیب مطیع والا معاملہ ایک اتنی اچھی کہانی میں لانا ضروری تھا؟؟؟؟؟ جواب : جی کیونکہ میں adults کے لیے لکھتی ہوں‘ بچوں کا فکشن نہیں۔ اور ہم وہی لکھتے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ پہلو اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ہاشم نے یہی الزام وارث اور زرتاشہ پہ لگایا تھا مگر اس سے پہلے... آپ نے نوٹ کیا کہ ہاشم کو سب سے زیادہ کس بات پہ فخر تھا؟ وہ ایک چیز جس کی بنیاد پہ وہ ہر جنگ لڑنے کے لیے خود کو تیار کر لیتا تھا‘ وہ اس کا ’’کاردار‘‘ ہونا تھا۔ اور اس کے گناہوں کے لیے اس کو ایک ٹریجک اور ایپک قسم کی سزا دینا ضروری تھا۔
سوال: علمی و عملی معرفت کے باوجود (سائنٹسٹ ہونے کے باوجود) ڈاکٹر سارہ کا کردار کافی بزدلانہ رہا۔ ایسا کیوں؟ جواب : اس بات پہ مجھے بھی افسوس ہے کیونکہ جن کو دیکھ کر میں نے یہ کردار لکھا تھا ( ان کی جاب کی حساسیت کی وجہ سے میں ان کا نام نہیں لے سکتی) مگر وہ زمر سے زیادہ بہادر تھیں اور میری نظر میں یہ ایک کمزوری تھی جس کو میں نمل سے دور نہیں کر سکی۔ جیسے جنت کے پتے میں ہالے نور کا کردار میں اس طرح نہیں لکھ سکی جیسے ہالے خود تھی اصل میں اور مجھے اس کا بھی افسوس ہے۔
سوال:نمل کے اس سفر کے دوران جو سوال سب سے زیادہ آپ سے پوچھنے کو بے تاب تھی وہ یہ ہے کہ آپ prediction کیسے کر لیتی ہیں؟نمل کے دوران ہی ڈاکٹر عاصم کا کیس (جسے ہاشم کے ساتھ relate کر سکتے ہیں)اور اب پاناما پیپر کیس اور سعد ی یوسف بنام نوشیرواں کاردار ٹرائل... کیسے؟ جواب : اچھے رائٹرز کو راز رکھنے آتے ہیں...وہ ہر ٹرک بتایا نہیں کرتے۔
سوال:آپ کو Realisticناولز لکھنے میں مزہ آتا ہے یا خودساختہ(فکشن)؟ جواب : ناولز تو سب فکشن ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ذوق بدلتا رہتا ہے جیسے مجھے ایک سوپر نیچرل فینٹیسی لکھنے کا بہت شوق تھا اور حالم کی صورت میں اسے پورا کر رہی ہوں۔
سوال:ہاشم کو آپ نے ولن دکھایا،بہت برے کام کیے اس نے ، کرپٹ،شیطانی دماغ، پھر بھی وہ آپ کا فیورٹ کیوں تھا؟اگر فیورٹ تھا تو ایسی اینڈنگ کیوں ؟ایسا کردار کیوں تھا ہاشم کا؟ جواب : فیورٹ انسان نہیں تھا‘ فیورٹ کردار تھا جیسے آپ کوئی گھر پینٹ کریں اور کہیں کہ یہ دیوار میں نے سب سے اچھی پینٹ کی ہے بھلے اس کا رنگ سیاہ ہی کیوں نہ ہو۔ بھلے اس پہ نصب پینٹنگز پہ خوفناک شکلیں ہی کیوں نہ بنی ہوں۔اگر وہ کمرے کی تھیم کو کمپلیمینٹ یا کنٹراسٹ کر رہی ہے تو وہ آپ کو بہت بھلی لگتی ہے۔ اس کو ایسے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ ہاشم نمل کا ٹریجک ہیرو تھا ۔ باقی میرا خیال ہے میں نے سب سے زیادہ محنت فارس پہ کی تھی‘ سب سے زیادہ دل سے حنین کو لکھا تھا‘ پیاری مجھے سب سے زیادہ زمر لگتی تھی‘ خوبصورت سب سے زیادہ جواہرات کو دکھایا تھا‘ سب سے زیادہ پیچیدہ کردار سعدی کا لکھا تھا اور سب سے اچھی کردار نگاری ہاشم کی کی تھی۔
سوال: نمل میں ہاشم کا کردار آخر تک منفی کردار رہا لیکن آپ نے اسے اس طرح پیش کیا کہ بہت سے لوگ اب بھی اس کے دیوانے نظر آتے ہیں...کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس سے برے لوگ اور برائی کی طرف لوگوں کا رحجان بڑھ سکتا ہے؟؟ جواب : دیکھیں‘ جو بھی کام آپ زندگی میں کرتے ہیں ‘ اس کے انجام کا انحصار آپ کی نیت پہ ہوتا ہے۔ میں اگر ہاشم کو ایک بہت برا آدمی دکھاتی جس میں کوئی خوبی نہیں تھی تو آپ سب اس سے شوق سے نفرت کرتے لیکن کوئی بھی اس سے ریلیٹ نہ کر پاتا۔ ریلیٹ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کچھ خوبیاں اپنے اندر ڈھونڈ کے‘ اس کو اپنے جیسا سمجھ کے اس سے سیکھنے کی کوشش نہ کرتا۔ جو بڑے بڑے ڈرگ لارڈز یا کرمنلز ہوتے ہیں‘ ان کے پاس بھی اپنے عمل کی ہزاروں توجیہات ہوتی ہیں مگر عموماََ ہمارے ہاں یک رخی کردار لکھے اور پسند کیے جاتے ہیں جبکہ انسان بہت پیچیدہ ہے۔ اس کردار کو لکھنے کا یہ مقصد تھا کہ آپ ہاشم جیسے برے ہوں تب بھی کسی بھی وقت پلٹ سکتے ہیں‘ اگر پلٹنا چاہیں۔ ہاشم کو بہت سے موقعے ملے مگر وہ نہی پلٹا۔ وہ اڑا رہا۔ اور آخر میں اس نے قبول کر لیا کہ وہ جیسا ہے‘ وہ ویسا ہی رہے گا۔ اب اس کردار سے برائی کس طرح فروغ پا سکتی ہے‘ میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہاشم کے گناہ کیا تھے؟ قتل۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ہاشم کو اتنی صفائی سے قتل کرتے دیکھ کے ریڈرز قتل کرنے لگ جائیں گے تو میں اس بات کو نہیں مان سکتی کیونکہ پوری کتاب قتل کے برے انجام کے گرد ہی گھومتی ہے اور آپ کو قتل کرنے سے پناہ مانگنے کا دل چاہتا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا جرم باتوں کو تروڑ مروڑ کے اپنی مرضی کا مطلب نکالنا اور جھوٹ بولنا تھا۔ یہ باتیں اس لیے لکھی جاتی ہیں تاکہ ریڈر کا ذہن شارپ کیا جائے۔ میں ہمیشہ ان موضوعات پہ لکھتی ہوں جہاں میں قارئین کو زندگی یا دنیا کا وہ پہلو دکھا سکوں جس کو وہ کم کم دیکھتے ہیں تاکہ ان کو ان چیزوں سے مقابلے کا ہنر آ سکے۔ آپ پستول بنانے والی کمپنیز کو ان کے پستولوں سے قتل ہونے والے لوگوں کی وجہ سے سزا نہیں دے سکتے کیونکہ وہ انسان کی حفاظت کے لیے یہ بناتی ہیں تاکہ آپ کو ان چیزوں کا مقابلہ کرنا آئے۔ دنیا بہت ظالم ہے۔ آپ کو انسانوں پہ اندھا دھند اعتبار کر کے ان سے یوں دب نہیں جانا۔متاثر نہیں ہو جانا۔ لکھاری کی نیت تو صاف واضح ہوتی ہے۔ ہاشم کو برا نہیں دکھایا تھا‘ اس کے عمل کو برا دکھایا تھا اور بحیثیت انسان اور مسلمان ہمیں ان دونوں باتوں میں فرق کرنا آنا چاہیے۔ ہاشم آپ کو بھلے پسند ہو‘ اس کا عمل کسی کو بھی پسند نہیں ہوگا اور یہی سارا فرق ہے۔
سوال: حنین اور سعدی کا کردار آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟ (اسپیشلی سعدی کا کردار...کیونکہ ہمارے آج کے معاشرے میں ایسا کردار دور دور تک نظر نہیں آتا) جواب : یہ دونوں ‘ ندرت‘اور اسامہ نمل کے سب سے نیچرل کردار تھے۔ ہر لڑکی کو اپنا بھائی نظرآتا تھا سعدی میں... اب بھائی اصل میں ایسا ہے بھی یا نہیں‘ یہ معاملہ بہرحال مشکوک ہے مگر یہ کردار تو آپ کو ہر گھر میں نظر آئیں گے۔ حنین کا آدھا حصہ وہ ہے جو بہت سی لڑکیاں ہوتی ہیں اورباقی آدھا وہ جو وہ درست راستہ چن کو خود کو بنا لیتی ہیں۔ آپ نے ان کرداروں کو معاشرے میں نہیں‘ خود میں ڈھونڈنا ہے۔
سوال: سارا ناول بہت اچھا تھا لیکن جب میں نے اینڈ پڑھا تومجھے لگا کہ یہ ناول آگے بھی چل سکتا ہے جس میں ہاشم اور اسکی بیٹی واپس آئیں گے اور ایک نئی کہانی (لڑائی) شروع ہو گی۔۔۔کیا ایسا کوئی امکان ہے؟؟؟ جواب : بالکل بھی نہیں۔ میں عموماََ اپنے تمام سلسلے وار ناولز کا اختتام ایک ایسے موڑ پہ کرتی ہوں جہاں سے کئی سڑکیں مختلف سمتوں میں مڑ رہی ہوتی ہیں تاکہ قاری کتاب بند کر کے آگے کی کہانی خود سوچے اور لطف اندوز ہو۔ یہ لکھاریوں کی ایک تکنیک ہے اور بہت جگہ استعمال ہوتی ہے۔
سوال:نمل کے سب کردار extraordinary ذہین اور کمپوزڈ تھے۔کیا کسی کردار میں آپ کی شخصیت کا عکس نظر آتا ہے؟ جواب : یہ تو میرا خیال ہے دوسرے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پہ نمل کے سب کردار ایکسٹرا آرڈنری نہیں تھے۔ سب عام انسان تھے مگر میں جس کھڑکی سے دنیا کو دیکھتی ہوں وہاں مجھے کوئی عام نہیں نظر آتا۔ اپنے اردگرد میں جس کو بھی دیکھوں مجھے اس میں بے پناہ صفات اور خوبیاں نظر آتی ہیں اور اسی لیے میں کرداروں میں بھی خوبیاں خامیاں دونوں ڈالتی ہوں۔ اپنا اپنا دیکھنے کا نظریہ ہوتا ہے۔ پرفیکٹ فیری ٹیل ہیرو وہ ہوتا ہے جو کنوارا‘ بے حد وجیہہ اور بے حد امیر ہو۔ مگر نمل میں ایک آدمی جیل پلٹ تھا جس کی بیوی مر چکی تھی اور جو انتہائی کڑوا تھا۔ اب آپ اس کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انتہائی ذہین‘ کافی خوش شکل اور خیال رکھنے والا تھا جو آخر میں اپنی پسند کی لڑکی کے ساتھ سیٹل ہو جاتا ہے۔ جب آپ ان دونوں زاویوں کو ملائیں گے تو وہ بالکل بھی پرفیکٹ نہیں لگے گا بلکہ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوگا۔ تمام کردار اسی طرح تھے۔ بات نظر کی ہے۔
سوال:میں نے غصِ بصر کے سارے فلسفے کو انتہاء practical اور کارآدمد پایا ہے۔ کیا یہ فلسفہ آپ نے خود سورہ النور سے اخذ کیا تھا؟ جواب : یہ آپ کو تفصیل سے امام ابن قیم کی کتاب ’’دوائے شافی‘‘ میں ملے گا۔ میں نے وہیں سے اس کو اخذ کیا ہے اور انہوں نے سورہ النور سے۔
سوال:آپ کو نہیں لگتا آپ نے آبی کے ساتھ کچھ برا کیا ہے؟ اس کو اسکی غلطی کی سزا زیادہ ملی ہے؟ جواب : آبی نے اپنا انجام خود لکھا تھا۔ مجھے اس کا افسوس ہے مگر یہ ہاشم اور اس کا آپس کا معاملہ تھا‘ میں اس سے بری الذمہ ہوں۔
سوال:نمل کی ابتداء میں لکھی جانے والی نظمیں انگلش ادب سے ہی کیوں لی گئیں؟ جواب : نمل میلو ڈرامہ تھا تو کسی صورت میں مجھے میلوڈی ڈالنی تھی۔ اس میں دو طرح کی شاعری شامل تھی۔ ایک جو ہر سین سے پہلے تھی۔ وہ اردو کا ایک شعر ہوتا تھا عموماََ۔ دوسری وہ جو ہر باب سے پہلے ایک طویل پیرائے میں ہوتی تھی۔ ان میں سے اکثر نظمیں نہیں تھیں۔ میں ان کو نظم کی صورت میں لکھتی تھی۔ وہ میں نے صرف انگریزی سے نہیں بلکہ بہت سی دوسری زبانوں سے لی تھیں۔یعنی وہ عموماََ بین الاقوامی نوعیت کی تھیں سوائے ایک دو کے۔ اس میں الہامی کتابوں سے لے کر فلم کے نغموں تک سب شامل تھا۔ جو اچھا لگا‘ میں نے لے لیا۔ جیسے اردو شاعری لینے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘ اس طرح بین الاقوامی نثر یا شاعری لینے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔
سوال: آپ اپنے پسند کے ناولز کی اگر کیٹیگریز بنایں‘تو نمل کس کیٹیگری میں آئے گا؟ جواب : حالم کے بعد۔ یعنی دوسرے نمبر پہ۔
سوال: نمل میں کاردارز سے کیس ہارنا‘ کیا اس کو ہمارے ملک کی سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے؟ جواب : چونکہ یہ پاکستان کی کہانی تھی تو عمومی حالات کو مد نظر رکھ کے لکھا گیا تھا۔ مجموعی حالات کو نہیں کیونکہ بہت دفعہ اسی ملک میں بڑے بڑے فیصلے بھی آئے ہیں مگر میں نے یہ کیس جیتتا اس لیے نہیں دکھایا کیونکہ میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتی تھی کہ منزل صرف ایک دھوکہ ہے۔ اصل چیز سفر ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کامیاب بھی ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ سیکھتے کیا ہیں۔ برائی کے خلاف آپ جنگ لڑیں گے تو آپ ہاریں گے‘ وہ جیتے گی۔ آپ پھر اس مافیا کے خلاف کھڑے ہوں‘ آپ پھر ہاریں گے وہ جیت جائے گا لیکن ہر دفعہ گرنے کے بعد آپ مضبوط اور وہ کمزور ہوتے جائیں گے۔ اور ایک دن آپ اس پہ فتح پالیں گے۔
سوال:آبدار کو آپ نے بہارے گل سے تشبیہ دی ہے پھر اس کا قتل ہوگیا...اس بار بہارے کے پاس کوئی عائشے گل کیوں نہیں تھی؟کیوں یہ کردار جس قدر دل کے قریب تھا اتنا ہی برا لگتا تھا؟وہ حنین جیسی یا عائشے جیسی کیوں نہیں تھی؟ جواب :جب میں نے مرضِ عشق پہ کہانی کے سب پلاٹ کو استوار کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو میرے پاس دو آپشن تھے۔ میں حنین کو ہی عشق سے ہارتا دکھا کے آبدار والے انجام سے دوچار کروں یا میں دو مختلف کرداروں کو ایک ہی مسئلے میں دو مختلف طریقوں سے برتاؤ کرتا دکھاؤں اور ان کے انجام ایک دوسرے کے برعکس ہوں۔ میں نے وہ راستہ چنا جس میں امید تھی۔ سکھانے کا مارجن زیادہ تھا۔ حنین کی طرح خود پہ کنٹرول نہیں کریں گے تو آبدار جیسا انجام ہوگا۔
سوال :کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کے ناول کے کردار دین اور دنیا میں مثالی ہوتے ہیں...آج کل کہ فتنوں کہ دور میں بچوں بچیوں کو صحابہ کرام کو آئیڈیالائزکرنا زیادہ ضروری ہے لیکن وہ آپ کے کرداروں کو کرتے ہیں۔ جواب : آہ....اس قسم کے ٹیڑھے سوالات مجھ سے اکثر پوچھے جاتے ہیں۔ جو باتیں لکھاری کی نیت یا ذہن میں دور دور تک نہیں ہوتیں ان پہ بھی رائے مانگی جاتی ہے۔ میرے پاس دو تین راستے ہیں۔ ایک یہ کہ میں بالکل ہی نہ لکھوں‘ یہ سوچ کے کہ دین میں ہر چیز لکھی جا چکی ہے تو میرے لکھنے سے کہیں کوئی اسے دینی شخصیات پہ فوقیت نہ دینے لگے۔ ایسا کر لوں؟ یا پھر یہ کروں کہ اپنے کردار اتنے برے لکھوں‘ اتنے بے کشش کہ کوئی ان کو پسند نہ کرے اور پھر بھی میں توقع رکھوں کہ لوگ ان سے کچھ سیکھیں گے؟ ایسا کر لوں؟ یا پھر میں یہ کروں کہ اچھی نیت کے ساتھ عام انسانوں کی طرح کے کردار لکھوں...جو اچھے بھی ہوں اور اپنی برائیوں سے لڑنے کی کوشش بھی کرتے ہوں...جن سے لوگ ریلیٹ کر سکیں اور ان سے سیکھ سکیں۔پھر جیسے موسیٰ علیہ السلام کے وقت فرعون کے اپنوں میں سے ایک نے اسلام قبول کر لیا تھا اور کہا تھا کہ ’’میری پیروی کرو‘‘ یعنی اچھائی میں میری تقلید کرو حالانکہ وہ ایک عام آدمی تھا تو اگر کوئی لڑکی اپنے مرضِ عشق سے لڑنے کے لیے حنین کی تقلید کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ حنین کو نعوذ باللہ صحابہ سے اوپر گردان رہی ہے۔ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اپنے والدین سے اچھی باتیں سیکھتا ہے یا ٹیچر کی اچھی باتوں پہ عمل کرتا ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان کو انبیاء سے اوپر گردان رہا ہے۔ اچھی بات جہاں سے بھی ملے لے لینی چاہیے۔ بھلے کوئی اپنے بھائی کا قاتل کوا ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں آئسکریم بھی پسند ہوتی ہے‘ پزا بھی۔ یہ چیزیں ہمارے انبیاء تناول نہیں فرماتے تھے تو اس کا یہ مطلب کیسے نکلتا ہے کہ ہم جو کی روٹی یا شہد کی بے قدری کر رہے ہیں؟ میں اچھی نیت سے ایک اچھی چیز لکھ رہی ہوں اور جب میری ایسی نیت ہی نہیں ہے تو میرا نہیں خیال اللہ تعالیٰ اس کو ایسے دیکھے گا۔ آپ بھی چیزوں کو مثبت طریقے سے دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ مسلمانوں کا یہ حال اس لیے ہے کیونکہ جس وقت ہم پہ باہر سے حملہ آور آ کھڑے ہوتے ہیں ہم مرغی مچھلی کے حرام حلال ہونے میں پھنسے ہوتے ہیں۔ کھلے ذہن اور مثبت سوچ کے ساتھ پڑھیں۔ انشاء اللہ نتائج مثبت ہی نظر آئیں گے۔
سوال: کیا نمل ہمارے ملک کے کرپٹ سیاستدانوں کی عکاسی کرتا ہے؟ جواب : سیاستدانوں کے اوپر حالم لکھا ہے۔ نمل آئی پی پی ز کے اوپر زیادہ بیس کرتا تھا اور بنیادی طور پہ با رسوخ قاتلوں پہ۔ اس کو میں نے شاہ زیب خان قتل کیس اور کامران فیصل قتل کیس کی وجہ سے لکھنا شروع کیا تھا۔ سیاست کا ٹچ بہت تھوڑا تھا۔
سوال:نمل میں ہر ایک کی آنکھوں کو بہت زیادہ ہائی لائٹ کیوں کیا گیا تھا؟؟ جواب : میں ہمیشہ کرداروں کے ظاہری خدوخال کو اتنا ہی ہائی لائٹ کرتی ہوں جتنا منظر نگاری کو تاکہ قاری کے ذہن میں ایک ٹھوس تصویر بیٹھ سکے۔
سوال: جب ہر چیز نے ختم ہونا ہے تو انتقام کا چکر بھی ختم کیا جا سکتا۔لیکن کیسے؟ جواب : انصاف کرنے سے یا اگر دوسرا اس کا اہل ہو تو معافی سے۔
سوال:آپ ان لوگوں کے لیے ناول کب لکھنے والی ہے جن کے پاس قرآن سیکھنے کے لیے کوئی ادارہ نہیں لیکن پڑھنے کی خواہش ہے؟ جواب : میں یہ سب انہی کے لیے ہی لکھ رہی ہوں اور ہمیشہ لکھتی رہوں گی۔ لیکن ایک بات یاد رکھئے گا۔ آپ کی خواہش اگر سچی ہے تو راستہ بن ہی جاتا ہے۔ آپ نے صرف نیت کرنی اور پہلا قدم اٹھا ناہے۔
سوال: نمل اتنا بہترین ناول ہے اور ناول کے ٹپیکل نظریے کو تبدیل کرنے میں کافی حد کامیاب بھی ہوئی ہے پھر بھی لوگ ناول کا لفظ سن کر ہی جج کیوں کرتے ہیں؟ جواب : دیکھیں اس میں ناول نگاروں کا قصور بھی ہے کیونکہ بہت سے ناول نگاروں نے ناول کو بدنام بھی کیا ہے لیکن برسوں سے کتنے ہی اچھا لکھنے والے بھی تواتنا اچھا لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ لوگوں کی سوچ بدلنے میں عرصہ لگتا ہے اور اگر یہ نہ بھی بدلے تو بھی ہم نے اپنی زندگیاں لوگوں کے کہنے پہ نہیں بسر کرنی ہوتیں۔ کوئی آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ آپ نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ ایسی باتوں کو نظر انداز کرنا بہتر ہے۔ ہر بات میں دوسروں کے اپروول کی پرواہ نہ کیا کریں۔
سوال: نمل کے تمام کرداروں میں سے کوئی کردار جو کسی حقیقی کردار سے انسپائر ہو کر لکھا ہو‘ جس کو آپ اصل میں جانتی ہوں اور آپ نے اس کو اسی طرح کے حالات سے لڑ کے اسی طرح مضبوط ہوتے دیکھا ہو؟ جواب : حنین یوسف۔
سوال:ناول کا نام’ نمل‘ رکھنے کا خیال کیسے یا کہاں سے آیا؟ جواب : پہلے اس کا نام عنکبوت رکھنا تھا کیونکہ میں اس کی تھیم یہ سیٹ کر رہی تھی کہ مرضِ عشق میں ہم کس طرح مقابل کو خدا بنا لیتے ہیں اور ہاشم جیسے لوگوں کے گھر کیسے کمزور ہوتے ہیں۔ مگر یہ ایک منفی چیز تھی۔ پھر میں نے اس کا نام بدل کے نمل اس لیے رکھا کہ حشرات الارض کے موضوع پہ سورتوں میں سب سے زیادہ ٹاپک سے متعلقہ یہی سورت لگی تھی مجھے۔ میں آخر تک نمل اور نحل میں تذبذب کا شکار رہی مگر نمل جیت گیا کیونکہ یہ زیادہ جامع لفظ تھا اور نحل کو میں نے ایک باب کے لیے رکھ دیا۔
سوال: ہاشم کی بیٹی لاسٹ میں چور کیوں بن جاتی ہے؟ جواب : میں عموماََ ایک ناول وہاں ختم کرتی ہوں جہاں سے مجھے دوسرا شروع کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال‘ وہ لڑکی چور نہیں بنتی۔ وہ دو دھاری تلوار بنا لیتی ہے خود کو۔ ہر قسم کے آلہء جنگ سے خود کو لیس کر لیتی ہے تاکہ اپنے انتقام کے لیے خود کو تیار کر سکے۔ بالکل ایسے جیسے فارس نے کیا تھا۔ پہلی قسط میں اس نے سعدی کا فون اسی طرح چرایا تھا۔ آخری قسط عموماََ پہلی کا’’ ڈے یاوو‘‘ ہوتی ہے۔ ایک عکس۔
سوال:سیم کے کردار کو بنانے کا کیا مقصد تھا؟ سعدی کو ہرٹ کرنے کے علاوہ؟؟ جواب : نیچرل کردار تھا۔ ہر دوسرے گھر میں ایسا چھوٹا بھائی ہوتا ہی ہے۔ ویسے یہ پہلے جنت کے پتے میں جہان کا چھوٹا بھائی تھا۔ وہاں حیا نے اس کو برداشت نہیں کیا تو میں اسے یہاں لے آئی۔
سوال:کیا آپ نمل کا دوسرا حصہ لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟اگر نہیں تو سونیا کو ظاہر کرنے اور اس کی کی جانے والی باتوں کا کیا مطلب تھا؟ جواب : نہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن میں یہ نہیں دکھا سکتی کہ ایک آدمی اپنا انتقام لیتا ہے‘ اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے آدمی کا خاندان تباہ ہو جاتا ہے بھلے وہ دوسرا آدمی کتنا بڑا قاتل تھا‘ اور جواب میں کوئی دوبارہ سے بدلہ لینے کے لیے تیار نہیں کرتا خود کو؟ انتقام کے چکر میں ایک سروائیور ہمیشہ رہ جاتا ہے اور یہ زندگی کی حقیقت ہے۔ میں یہ نہیں دکھا سکتی کہ فارس اتنے غلط کام بھی کرتا جائے بھلے ان کی کتنی ہی توجیہات کیوں نہ ہوں ‘ اور اس کے نتائج نہ ہوں۔ cause and action کا قانون ہر انسان پہ اپلائی ہوتا ہے۔
سوال:کیا آپ نے ناول لکھتے ہوئے کسی اور کی مدد لی؟ جواب : ایڈمن گل کی سب سے زیادہ۔ ان کے بغیر میں خود کو بہت تنہا سمجھتی ہوں۔ یہ جس طرح اپنے کندھوں پہ میرا بوجھ لے کہ مجھے ہلکا کر دیتی ہیں‘ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے علاوہ عموماََ جن سے بھی مدد لی وہ اپنا نام لکھا جانا پسند نہیں کرتے۔کچھ نے بالکل مدد نہیں کی اس لیے میں ان کا نام لکھنا پسند نہیں کرتی۔
سوال:اگر عشق صرف ایک مرض ہے....تو پسند کی شادی کس صورت میں جائز ہے.؟ جواب : عشق ناجائز نہیں ہے۔ مرض ہے۔ جیسے فلو ہو جانے سے کسی کو گناہ نہیں ملتا۔ وہ فلو ہو جانے کے بعد کیا کرتا ہے یہ اس کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔
سوال:نمل میں چیونٹیوں کے واقعہ کو فیملی سے جوڑا گیا تو یہ آئیڈیا آپ کو کیسے آیا؟؟؟ جواب : جب میں سورۃ النمل کی تفسیر پڑھ رہی تھی تو ہر واقعے پہ مجھے یہی خیال آتا تھا کہ چیونٹیوں کا تو ایک ہی واقعہ موجود ہے سورۃمیں‘ پھر پوری سورۃکا نام النمل کیوں رکھا ہے؟ پھر میں نے واقعات کو جوڑا تو ان سب میں فیملی کا عنصر نمایاں تھا یا پھر اکائی کا پورے معاشرے کے سامنے کھڑے ہو جانے کا اور یوں نمل کی تھیم ڈویلیپ ہوئی۔
سوال:کسی بھی موضوع پر آپ جب کام شروع کرتی ہیں تو آپ کا ریسرچ ورک کتنا وقت لیتا ہے؟ جواب :شروع میں چند ماہ لگ جاتے ہیں اور باقی کام ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے۔
سوال:آپ انگلش رائٹرز اور شاعروں کو اپنے پروجیکٹ کے لیے پڑھتی ہیں یا پہلے سے پڑھا ہوتا ہے؟ جواب : میں پراجیکٹ کے لیے پڑھتی ہوں۔ نمل کی اقساط کی ابتدائی شاعری یا نثر جو میں نے بین الاقوامی ادب سے اٹھائی تھیں‘ وہ میں قسط لکھنے سے پہلے ڈھونڈتی تھی اس قسط کے تھیم کو مدِ نظر رکھ کے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے ان رائٹرز کے سارے کام پڑھ رکھے ہیں۔آپ تالیاں بجانا روک سکتے ہیں۔ اتنا زیادہ متاثر ہونے کی بات نہیں ہے۔
سوال:سونیا آخر میں فارس سے نفرت کیوں کرتی ہے جبکہ فارس نے ہمیشہ اسے محبت دی تھی، اور اسے ہاشم سے نفرت کیوں نہیں ہوئی؟ جواب : کیونکہ یہی انسانی فطرت ہے۔ آپ بڑے سے بڑا مجرم دیکھ لیں۔ اس کے بچے اس سے محبت ہی کریں گے۔ سیاستدانوں کو دیکھ لیں۔ ان کے بچے انہی کے ناموں کی مالا جپتے نظر آئیں گے بھلے اندر سے وہ اپنے والدین کے سارے جرائم سے واقف ہوں۔ مجھے وہی دکھانا ہے جو معاشرے میں ہوتا ہے۔
سوال:نمل میں حنین کو زمر لمبی نماز میں پڑھی گئی مسنون دعائیں کیوں نہیں بتاتی؟ جواب : کیونکہ میں ناول میں عربی دعائیں یاد نہیں کروا سکتی نا‘ وہ چیز ناول کی حد سے نکل جاتی ہے۔ رائٹر کو لوگوں کے دلوں میں شوق پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ ان کو درخت کاٹ کاٹ کے دینا اور ان کا چولہا جلائے رکھنا نہیں ہوتا بلکہ ان کو کلہاڑا بنا کے دینا ہوتا ہے تاکہ وہ ساری عمر آزادی سے اپنا کام خود کر سکیں۔
سوال: نمل کے کرداروں(منفی،مثبت) میں کوئی ایک بات جو لکھتے ہوئے آپ نے مشترک لکھی ہو؟؟؟ جواب : سب کی کوئی نہ کوئی بیک اسٹوری ضرور ہے۔ ڈارک اور سیاہ مگر ہر ایک نے ماضی میں کچھ برا ضرور کیا ہے۔
سوال:ناول کا نام کہانی کی تھیم کے مطابق رکھا یا پہلے نمل کا نام سوچا پھر کہانی لکھی؟ جواب : پہلے تھیم ... پھر نام ۔
سوال:فارس نے زمر اور حنین کی جاسوسی کیسے کی آخر اسے ہر بات کیسے پتہ لگی؟ جواب : کیونکہ خوش قسمتی سے وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے اور وہ ان سے ذرا زیادہ ذہین واقع ہوا تھا۔
سوال:نمل میں تقریباً سارے کردار ذہین اور باصلاحیت تھے سوائے نوشیرواں کے.... اس کی کوئی خاص وجہ؟ جواب : نوشیرواں......ویل....مجھے لگتا ہے کہ یہ کردار ذہین تھا مگر یہ اتنا سپوائلڈ تھا کہ اس کی ذہانت کو زنگ لگ گیا تھا ۔ اس کو اتنی آسانیاں ملی تھیں کہ اس نے اپنی عقل سے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ اور اگر آپ ملک کے اعلیٰ پایے کے شاطر سیاستدانوں کو بھی دیکھ لیں تو ان کے بچوں میں سے بھی کوئی ایک آدھ ہی blue-eyed نکلتا ہے۔ باقی عموماََ گوف ہوتے ہیں۔یہ نیچرل تھا۔
سوال: ہاشم کو توبہ کے راستے پر کیوں نہیں لایا گیا؟ جواب : اگر آپ ہر کردار سے توبہ کروادیں تو اس کے گناہوں کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گا۔ اس کا کیا کرایا چھوٹا لگنے لگتا ہے اور آپ کا سکھانے کا مارجن بہت حد تک سکڑ جاتا ہے۔ آپ نے اگر گناہوں کی سنگینی دکھانی ہے تو آپ کو اپنے ولن کو سزا دینی ہو گی۔ کسی بھی معاشرے میں کرپشن کی بنیاد ہمارا یہی ’’اچھا خیر ہے معاف کر دو‘ اتنا پیارا ہے اس پہ ترس آ رہا ہے‘ اب یہ نہیں کرے گا ایسے‘‘ والا رویہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم سیاستدانوں کو معاف کرتے آئے ہیں۔ میں اس رویے سے اتفاق نہیں کرتی اس لیے مجھے آخر وقت تک ڈائجسٹ ایڈمنسٹریشن سے ہاشم کے انجام کے لیے لڑنا پڑا تھا۔
سوال:شیخ ابن قیّم الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب دوائے شافی کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا قابلِ تعریف ہے ، اس کے پیچھے کیا سوچ تھی آپ کی؟ جواب : بچیاں ای میلز کرتی ہیں اور ان کی مائیں بھی۔ کہ کیا کریں؟ دوست کو‘ بہن کو‘ بیٹی کو یا خود ان کو موبائل یا ٹی وی ڈراموں یا کسی مرضِ عشق نے بے کار کر رکھا ہے تو اس موضوع پہ سب سے اچھی کتاب جو میں نے پڑھی تھی وہ دوائے شافی تھی کیونکہ اس میں obssession کے بہت سے حل ڈسکس کیے گئے تھے۔ میں نے شاید چھے سات سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس موضوع پہ لکھنا ہے۔
سوال: انصاف کہاں تک انصاف رہتا ہے اور کب بے ررحمی بن جاتا ہے؟ جواب : جب آپ کسی پہ اس سے زیادہ ظلم کریں جتنا اس نے آپ پہ ڈھایا ہو۔
سوال:جواہرات کے ساتھ اتنا برا ہوا؟ پھر بھی سونیا کو انتقام کے لئے تیار کرتی رہی؟ آخر کیوں؟ جواب : کیونکہ رسی کے جلنے سے بھی اس کا بل نہیں جاتا۔ نمل میں برے لوگ مختلف قسم کے تھے۔ کچھ خاور جیسے جو پچھتاوے کا شکار رہتے ہیں مگر درست کام کرنے کا موقع نکل چکا ہوتا ہے۔ کچھ ہاشم جیسے جو عرصہ خود کو جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں اور آخر میں خود کو برائی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ کچھ نوشیرواں جیسے جو بہت دھڑلے سے برا کر کے اس کے نتائج بھگتتے ہیں ‘ ٹھیک ہونا چاہتے ہیں مگر آخر تک بزدلی دکھا جاتے ہیں۔ اور کچھ جواہرات جیسے جو ہمیشہ سے پیور ایول ہوتے ہیں‘ یہ کبھی نہیں بدلتے۔ بہت ہی ٹیپیکل ہو جاتا اگر جواہرات تسبیح لے کر عبادات میں مصروف ہوتی۔ یہ وہ جواہرات نہیں تھی جس نے اتنا عرصہ یوسفز اور فارس کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔
سوال: سعدی کافی شاپ پہ آئس کریم کے فلیورزگیس کرنے کے لیے کیا ٹرک استعمال کرتا ہے؟ جواب : یہ بنیادی طور پہ ہاتھ کی صفائی ہوتی ہے۔ مجھے ٹرک نہیں معلوم مگر ایک امریکی ریستوران میں اسی طرح کیا جاتا ہے۔ گوگل کر لیں۔ شاید کسی کو ٹرک مل بھی جائے۔
سوال: حنین پڑھائی کے بعد فارغ تھی لیکن کوئی پڑھنے یاجاب کرنیوالی مصروف لڑکی مرضِ عشق کا کیسے علاج کرے؟ جواب : اس کو تو زیادہ فائدہ مل جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس خود کو زبردستی مصروف رکھنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ دیکھیں آپ کو آپ کے جنون سے صرف دو چیزیں نکال سکتی ہیں۔ ایک آپ کی اپنے لیے کی گئی بے پناہ دعا۔ اور دوسری اس چیز یا اس شخص سے ایک کلین بریک۔ مکمل علیحدگی۔ ورنہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اور جب آپ کا دل بہت خراب ہونے لگے تو نفل پڑھ کے دعا کریں۔ تین سے چار ماہ لگیں گے اور آپ بالکل صحت مند ہو جائیں گے۔آپ خود کو نکالیں گے تو آپ اس سے نکلیں گے۔ کوئی باہر سے نہیں آئے گا۔ آپ اپنا ہیرو خود ہیں۔ اور اس سے ہمیشہ آپ ایک بہتر ‘ گہرے اور زیادہ مضبوط انسان بن کے نکلیں گے انشا ء اللہ۔ آپ کو صرف پہلا قدم لینا ہے۔ جتنا زیادہ سیلف کنٹرول آپ پریکٹس کریں گے‘ اتنے زیادہ مضبوط آپ بنیں گے۔ وہی پیچھے والی مثال یاد رکھیں۔پہلی دفعہ بدی سے لڑیں گے اور ہاریں گے۔ بار بار لڑیں گے اور ہاریں گے مگر ہر ہار کے بعد آپ مضبوط اور وہ کمزور ہوتی جائے گی۔ آپ نے بس لڑنا نہیں چھوڑنا۔ بار بار اٹھ کر دوبارہ سے خود کو سیلف کنٹرول کے لیے تیار کرنا ہے۔ پھر خود سے کیا وعدہ توڑ دیا؟ پھر ادھر چلے گئے جہاں نہیں جانا تھا؟ پھر اس سے بات کر لی؟کوئی بات نہیں۔ پھر سے کھڑے ہوں اور پھر سے کوشش کریں۔ ایک دن آپ جیت ہی جائیں گے۔
سوال:نمل میں حنین اور سعدی کے کریکٹر کو ادھورا کیوں چھوڑا؟ انکے اختتام میں کچھ کمی تھی۔ جواب : ناول میں جب بھی کوئی کردار لکھا جاتا ہے تو اس کے اندر شروع سے کوئی conflict دکھایا جاتا ہے‘ اور ساری کہانی کے دوران وہ کردار اس کو resolve کرنے میں لگا رہتا ہے اور آخر میں یا تو کردار مات کھا جاتا ہے (جیسے ہاشم)یا اس کا وہ conflict حل ہو جاتا ہے۔ سعدی اور حنین اپنے جس جس تنازعے سے دوچار تھے وہ ناول کے اختتام میں جا کر ختم ہو گئے تھے۔ مگر میں جانتی ہوں کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے۔ نمل کے اختتام پہ مجھے ایک کمنٹ پہ بہت افسوس ہوا تھا جب کسی نے لکھا کہ سونیا کا بھی آخر میں کوئی ہیرو ہوتا کاش تاکہ اسے اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا‘ اس کی زندگی مکمل ہو جاتی۔ یہ کس نے ہمارے پیمانے سیٹ کر دیے ہیں کہ ہیرو یا ہیروئن کے بغیر آپ ادھورے ہیں؟ کیا زندگی میں ہمارے یہی گول رہ گئے ہیں؟ کہ کوئی لڑکی تب تک مکمل نہیں ہو گی جب تک کہ اس کا ہیرو نہیں ہو گا؟ یہی چیز تو حنین آپ کو بتا رہی تھی کہ وہ اپنا ہیرو خود ہے۔ مجھے بارہا ڈائجسٹ کی طرف سے بھی کہا گیا کہ سعدی کی ایک’’ اچھی سی نیک‘ شریف‘ صوم و صلٰوۃکی پابند‘‘ ہیروئن ضرور متعارف کرواؤں‘ تاکہ اس کا کردار مکمل ہو سکے۔ مگر سعدی کے کردار کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ناول میں اس کا conflict کچھ اور تھا۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم ہیرو ہیروئن سے اوپر نکل آئیں۔ ہیرو‘ ہیروئن اور ولن ہر کہانی میں ہوتے ہیں اور میری بھی تقریباََ ہر کہانی میں ہیں اور ہوں گے مگر ہر کردار کا زبردستی کا جوڑا بنانا .... یہ میں کرنے سے قاصر ہوں۔ میرے نزدیک ان دونوں کے کردار بالکل مکمل تھے اور ان کے اپنے کرداروں نے ہی ان کو مکمل کیا تھا۔
سوال:نمل کے کردار پہلے سے طے تھے یا قسط وار ان میں اضافہ ہوتا گیا؟ جواب : صرف احمر کے کردار کی طوالت میں اضافہ ہوا۔ اس کا رول شروع اور آخر میں زیادہ تھا‘ لیکن جب کوئی کردار فین فیورٹ بن جاتا ہے تو ہم رائٹرز اس کو بڑھا دیتے ہیں۔اس کو ہر قسط میں‘ میں نے تھوڑا سا اسکرین ٹائم آپ کی وجہ سے دیا تھا۔ ویسے وہ مجھے پسند بھی بہت تھا۔
سوال:نمل کا اختتام قارئین کی آراء کو مد نظر رکھ کے لکھا گیا؟ یا ادارے کی؟ یا اپنی؟ جواب : قارئین‘ دوست‘ ادارہ...سب نے اپنی اپنی مرضی کے اختتام مجھے بتائے تھے ۔ مگر مجھے وہی لکھنا تھا جو پہلے دن سے طے تھا۔ اس میں وقت کے ساتھ ڈویلیپمنٹ ہوئی یعنی کچھ چیزوں کی شدت ذرا زیادہ ہوتی گئی جیسے جیسے ان کرداروں کے گناہوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن اختتام میرا اپنا ہی تھا اور اس میں‘ میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ نمل کا یہی سب سے لاجکل اینڈ تھا۔ قارئین کی آراء پہ ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ کسی فین فیورٹ کردار کی لینتھ بڑھا دیں‘ یا جو نکات قارئین کو سمجھ نہ آ رہے ہوں ان کو اگلی اقساط میں واضح کر کے لکھ دیں لیکن مرکزی نکات رائٹرزکو اوریجنل ہی لکھنے چاہیے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ رائٹر اپنے ریڈرز کو خود سے کم تر سمجھتا ہے بلکہ اس لیے کہ رائٹر نے جس مقصد کے لیے کہانی لکھی ہے وہ پورا ہو۔
سوال:نمرہ کو نمل کا کونسا منظر سب سے زیادہ اثر انگیز اور دل کے قریب لگا؟ جواب : مجھے وہ شہد کی مکھی والا منظر جب ہاشم اور سعدی کا شو ڈاؤن ہو تا ہے بہت پسند تھا۔ اس کے علاوہ غارت گر میں جواہرات کا اورنگزیب کو مارنے والا پورا سین اور اس کے بعد سے قسط کے اختتام تک کا بیانیہ ۔ اور بھی بہت سے مناظر ہیں مگر اس وقت یاد نہیں آرہے کیونکہ بہت طویل ناول تھا ۔
سوال: ’’جب بھی دو لوگوں میں سے کسی کو چننا ہو ‘ نہ پہلے کو چنیں نہ دوسرے کو۔ ہمیشہ خود کو چنیں‘‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ جواب : اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی خواہشات پہ زندگی نہ بسر کریں۔ اپنا سوچا کریں۔ آپ ہر ایک کو خوش نہیں کر سکتے۔ آپ کس میں خوش ہیں یہ سوچا کریں۔ انسان کے اپنے دل کی خوشی سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے کیونکہ آپ زندگی میں مثبت سوچ کے ساتھ کوئی کام کر نہیں سکتے جب تک آپ کی ذہنی اور جذباتی حالت اسٹیبل نہ ہو۔
سوال: NDE کو شامل کرنے کی کیا وجہ تھی جب کہ سعدی تو نہیں گزرا اس سے ؟ جواب : نمل میں بہت سی چیزیں انسانی جان لینے سے متعلق تھیں اور چونکہ آبدار نے بھی خود کو نقصان پہنچایا تھا اس لیے قتل کی ایک قسم خودکشی کو مجھے ہائی لائٹ کرنا تھا۔ پھر یہ آبدار کی بیک اسٹوری کے لیے بھی ضروری تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور بہت سے لوگ اس سے گزرتے ہیں۔
سوال:اس ناول کا اہم مقصد آپکی نظر میں کیا تھا .؟ جواب : انسانی دل اور انسانی خون کی اہمیت‘ اس کی قدر اور اس کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کس طرح کیا جائے۔
سوال:نمل میں چونکہ مخالفین دونوں ہی ٹکّر کے تھے کم از کم ذہانت میں اور مستقل مزاجی میں لیکن اگر کسی بہت کمزور خاندانی فرد یا فیملی کے ساتھ کچھ برا ہو بلاوجہ حسد میں نہ ان کے پاس پیسا ہو نہ کوئی رابطے تو وہ صبر ہی کریں؟ جواب : کوئی کمزور نہیں ہوتا۔ کوئی بے بس نہیں ہوتا۔ اللہ نے اگر کسی مظلوم کو کمزور اور بے بس بنایا ہوتا تو وہ ظالم اور خاموش مظلوم کو برابر نہ قرار دیتا۔ جس کے بس میں جو کچھ ہو وہ اسے کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے امتحانوں سے محفوظ رکھے۔
سوال:آپ کو نہیں لگتا کہ آپ ابھی قرآن کی آیات سے اپنے مطابق مطالب اخذ کر رہی ہیں(جو ہو سکتاہے درست نہ ہوں کہ بہرحال آپ بھی انسان ہیں اور آپکو اس پہ عبور بھی نہیں) اور ان لوگوں تک پہنچا رہی ہیں جو اندھا دھند آپ کی تقلید کرتے ہیں. یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔آپ اس سلسلے میں قدرے لاپروائی سے کام نہیں لے رہیں؟آپ بلاشبہ بہترین کہانی نگار ہیں۔آپ معاشرتی اور دینی قدروں پہ لکھ کے تبدیلی لا سکتی ہیں۔ کلام پاک کے مفاہیم نکالنا آپ تب تک ملتوی کیوں نہیں کردیتیں جب تک آپکا اس بارے علم مکمل نہ ہو۔آپکی ایک غلطی ہزاروں لوگوں پہ اثر انداز ہوگی۔ جواب : سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لیں کہ’’ تدبر ‘‘قرآن سے مطلب نکالنا نہیں ہے نہ تفسیر کرنا ہے نہ مفہوم نکالنا ہے۔ اور سب سے زیادہ ضروری بات جو میں چاہتی ہوں کہ آپ تین دفعہ میرے ساتھ دہرائیں۔ نمرہ احمد نے قرآن سے کوئی ’’نیا‘‘ مطلب نہیں نکالا۔ کوئی نیا مطلب نہیں نکالا۔ کوئی نیا مطلب نہیں نکالا۔ یہاں تک کلئیر ہو گیا؟ آپ کو معلوم ہے‘ ایک ہوتی ہے تاویل اور تفسیر جس میں علماء قرآن کی آیات کا مفہوم بیان کرتے ہیں‘ ان کو گرامر اور صرف و نحو کے اصولوں پہ پرکھتے ہیں‘ آیات کی شان نزول لکھتے ہیں اور ان سے متعلقہ احادیث کے احکامات اور فقہ کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ ہے تفسیر کا عمل سادہ الفاظ میں اور یہ بہت ضروری ہے۔ یہ علماء کے لیے ہے‘ مفسرین کے لیے ہے اور اس پہ چودہ صدیوں سے جید علماء کام کر رہے ہیں۔ میں اس علم کو چھیڑنا یا اس میں مداخلت کرنا مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ میرا علم اس لیول کا ہو نہ ہو‘ میرا عمل اس لیول کا نہیں ہے جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ جو کام میں کرتی ہوں وہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہر میرے اور آپ جیسے عام انسان کو۔ آپ ﷺ نے کبھی اپنے آپ کو قرآن کا مفسر نہیں کہلایا تھا۔ اس بات کو بھی میرے ساتھ تین دفعہ دہرائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی خود کو قرآن کا مفسر نہیں کہا تھا۔ انہوں نے ہمیں قرآن پہ غوروفکر کی ترغیب دی تھی اور کچھ آیات جیسے آل عمران کی آخری آیات کے بارے میں یہ تک فرما دیا کہ جس نے ان پہ غوروفکر نہیں کیا اس کی تو دنیا آخرت تباہ ہو گئی۔ (مفہوم) آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب تم پچاس ساٹھ کے ہو جاؤ اور تمہارا علم بہت بلند ہو جائے اس سے پہلے اس کام کی کوشش نہ کرنا‘ بس ساری زندگی ڈرتے رہنا کہ تم غلطی نہ کر دو‘ اور اس خوف میں زندگی بسر کر دینا کہ کہیں تمہاری وجہ سے کوئی بہک نہ جائے۔ کسی کو کیا معلوم کہ کسی انسان کی زندگی کتنی طویل ہے؟ کتنی چھوٹی ہے؟ کیا ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ ہم اس وقت کا انتظار کریں جب ہم بہت ہی نیک اور عالم فاضل ہو جائیں گے‘ ہاں تب ہم قرآن پہ لکھیں گے ۔ ابھی نہیں۔ ابھی تو ہم کہیں غلطی نہ کردیں۔ اگر ایسا تھا تو رسول اللہ ﷺ کیوں صحابہ سے قرآن کی آیات جن میں کلمہ طیبہ کو ایک درخت سے تشبیہہ دی گئی تھی‘ بیان فرماتے وقت پوچھتے تھے کہ تمہارے خیال میں یہ کون سا درخت ہے؟ اور صحابہ خاموش رہے تو آپ ﷺ نے بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے تو ایک صحابی بول اٹھے کہ مجھے یہی خیال آیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم نے کہا کیوں نہیں؟ یہ نہیں فرمایا کہ ابھی تو قرآن پورا نازل ہی نہیں ہوا‘ ابھی تمہیں اتنا علم نہیں ہے‘ ابھی تم اپنی مرضی سے سوچو نہیں‘ ابھی تم اپنا ذہن استعمال نہ کرو۔ نہیں۔ جن رسول ﷺ کو میں جانتی ہوں.... انہوں نے ہمیشہ غوروفکر کی دعوت دی۔ سوچنے پہ مجبور کیا۔ اب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی آپ خود غوروفکر کریں‘ لوگوں کو نہ بتائیں۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں؟ اول تو میں نے صرف قرآن میں سے اسباق نکالے ہیں اور یہ کام تو ہر کوئی کر رہا ہے۔ ہر گلی محلے میں درس دینے والی خواتین ہوں یا مسجد کے مولوی حضرات یا ٹی وی پہ اسلامی شوز کرتے حضرات...آپ غور کریں تو ہر کوئی یہی بتا رہا ہے کہ اس آیت کو ہم اپنی زندگی میں کیسے اپلائی کر سکتے ہیں اور یہ بتانے کے لیے آپ کو پی ایچ ڈی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف قرآن کا علم حاصل کرنا ضروری ہے اور وہ الحمدللہ میں نے حاصل کر رکھا ہے۔ میں مستند کتابوں سے اور علماء سے مشورہ کر کے لکھتی ہوں‘ اور بعض دفعہ ان کو اپنا کام دکھا کے اپروول لے کر آگے بڑھتی ہوں۔ آپ کو نمل میں کوئی ایسا نتیجہ نکلتا نہیں دکھائی دے گا جو آپ کہیں کہ یہ تو نمرہ نے خود سے لکھ لیا ہے یہ تو دین میں ہے ہی نہیں۔ جو بھی میں نے لکھا وہ سالہا سال کی دہرائی گئی باتیں ہی ہیں بس انداز مختلف ہے۔ قرآن ایک سمندر ہے۔ ہر دفعہ ڈوب کے نکلیں گے تو آپ بھیگے ہوں گے لیکن ایک دفعہ جو قطرے آپ کو چھوئیں گے‘ اگلی دفعہ والی قطرے ان سے مختلف ہوں گے۔ ہر دفعہ آپ پہ غوروفکر کے نئے باب کھلیں گے اور اگر میرے پاس ابھی توانائی ہے‘ علم بھی تھوڑا بہت ہے‘ علماء کی صحبت بھی ہے‘ اور وقت بھی ہے تو میں کیوں اس علم کو‘ جو میں نے سیکھا ہے‘ جو سبق میں نے زندگی سے نکالے ہیں‘ ان کو دوسروں تک نہ پہنچاؤں؟ فقہہ کا ایک اصول ہے کہ اگر کوئی سچی نیت سے کسی مسئلے کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں نکالتا ہے اور بعد میں وہ غلط بھی ثابت ہو جائے تو بھی امید ہے کہ اللہ اس کو معاف کر دے گا کیونکہ اللہ نیتیں دیکھتا ہے۔ جو بات درست ہو گی اس کو اللہ دوام دے گا اور جو نہیں ہو گی اس کو اللہ خود ہی جھاڑ دے گا۔ میں آج نمل میں اگر یہ لکھتی کہ حجاب کرنا دقیانوسی سوچ ہے وغیرہ وغیرہ تو جن لوگوں کو آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ بے چاری بے وقوف معصوم لڑکیاں میری اندھی تقلید کرتی ہیں‘ یہ لڑکیاں اسی وقت مجھے پڑھنا چھوڑ دیتیں کیونکہ نہ یہ بے وقوف ہیں نہ اتنی سادہ کہ ان کو معلوم نہ ہو سکے کہ ان کو غلط بات بتائی جا رہی ہے۔ یہ لاپرواہی نہیں ہے۔ جب آپ مستند کتابوں اور علماء کے مشورے سے لکھتے ہو‘ اپنی اچھی نیت اور پوری کوشش کے ساتھ اور اپنے لیے آیات میں سے سبق نکالتے ہو اور دوسروں کے ساتھ ان کو شیئر کرتے ہو تو یہ لاپرواہی نہیں ہے۔ یہ عبادت ہے اور اس عبادت کواگر ہم دوسری کئی عبادتوں کی طرح ’’بڑھاپے ‘‘ کے لیے رکھ چھوڑیں تو یاد رکھیں...وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جب ہم پرفیکٹ ہو جائیں گے۔ میں بھی بہت غلطیاں کرتی ہوں لکھنے میں‘ اور میں ان سے سیکھ کے خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ جس اللہ کو میں جانتی ہوں ‘ وہ انسان کی نیت اور کوشش دیکھتا ہے۔ کامیابی دینا‘ اس کے کام کو پھیلانا‘ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگر وہ کام کو کسی اہل سمجھے گا تو اس سے لوگوں کے دل خود مسخر کر دے گا۔ نہیں سمجھے گا تو ضائع کر دے گا۔ اس لیے ہم سب کو مثبت پہلو کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے دینی لوگ بھی مجھ پہ فتوے لگاتے رہتے ہیں لیکن مجھے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی اگر وہ میرے طریقے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنا طریقہ بہتر طور پہ استعمال کرتے۔ میرے دینی قسم کے anti-fans اپنی ساری توانائی نمرہ احمد کی شان میں قصیدے لکھنے کے بجائے اگر دین پھیلانے اور دین کو آسان کرنے میں لگاتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ ایک مخصوص طبقے کو سب سے زیادہ بری بات یہ لگتی ہے کہ علماء کی اتنی ڈھیر ساری کتابوں کے ہوتے ہوئے لڑکیاں ناولز سے کیوں راہنمائی لے رہی ہیں؟ پہلی بات۔ کیا وہ ہر ناول سے راہنمائی لیتی ہیں؟ نہیں۔ وہ چند ایک سے کچھ سیکھتی ہیں۔ دوسری بات‘ اگر ایسا ہے بھی تو اس میں غلطی کس کی ہے؟ اگر دو دکانیں ساتھ ساتھ کھڑی ہوں (وہ مجھے دکانداری کا طعنہ دیتے ہیں اس لیے مجھے یہ لفظ استعمال کرنا پڑا) اور ایک پہ رش ہو اور ایک پہ نہ ہو تو خالی دکان کے مالک کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ میرے پاس اب لوگ کیوں نہیں آتے؟ میں بہت ادب کے ساتھ آپ سے سوال کرتی ہوں‘ آپ نے دین کو اتنا مشکل کیوں بنا دیا کہ لوگ آپ سے بے زار ہو گئے؟ ناول نگاروں پہ غصہ نکالنے کے بجائے ان تھوڑے سے لوگوں کو چاہیے کہ سوچیں‘ اگر اہل علم اتنی مشکل اردو میں اتنی گاڑھی باتیں نہ کرتے اور اللہ اور بندے کے درمیان اتنے ڈھیر سارے تکلفات کی روایات نہ ڈالتے‘ قرآن کو خود عام کرتے‘ قرآن ہر بندے کو سکھاتے اور لوگوں کو غور و فکر کرنے اور اپنی عقل استعمال کرنے کی ترغیب دیتے‘ تو آج ناول نگاروں کو اخلاقیات یا دین کے درس اپنی کتابوں میں نہ دینے پڑتے۔ آپ کئی صدیاں پہلے کی دینی کتابیں پڑھیں ‘ آپ کا دل روشن ہو جائے گا۔ آسان اور سادہ اور گہری کتابیں ...آپ فقرے ہائی لائٹ کر کر نہیں تھکیں گے۔ آپ آج کے دور کے علماء کی گفتگو سنیں‘ آپ کے سر سے گزر جائے گی۔ حضور‘ قصور کس کا ہے؟ میں تو ناولسٹ ہوں۔ میرا کام ہے اچھا اور پر اثر لکھنا اور اس کے ذریعے لوگوں کو کچھ سکھانا جس کا حق مجھے میرے دین نے دیا ہے۔ اگر آپ عام مسلمان سے یہ حق چھین لیں تو پھر ٹی وی پہ یا گلی محلے میں کسی کو بھی دین کے در س دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اگر ان کو ہے تو مجھے بھی ہے۔ آگے اللہ بہتر جانتا ہے۔ اور میں سب سے زیادہ شکر گزار ان علماء کرام‘ ان مدرسوں کے استادوں‘ ان دینی طلباء طالبات کی ہوں جن کی ایک کثیر تعداد ہے جو ہمیشہ مجھے پڑھتی رہی ہے‘ میری ہمت بندھاتی رہی ہے‘ مجھے انسپائر کرتی رہی ہے اور میرے لیے دعا کرتی رہی ہے۔ اگر ہمارے یہ علماء اور یہ دین کے طالب علم ہر وقت میرے کام کے ساتھ تعاون کے لیے تیار نہ ہوتے‘ تو میرے لیے لکھنا بہت مشکل ہو جاتا۔
سوال:نمل میں قرآن کا تدبر تھا مگر اس میں فروزن کا ٹائٹل سونگ کیوں لیا۔کیا قرآن کی اسٹوڈنٹ نہیں جانتی کہ میوزک کی گنجائش نہیں؟؟؟ جواب :شاعری تھی میری پیاری بہن۔ شاعری حرام نہیں ہے۔ موسیقی کے آلات نہیں تھے کہانی میں۔ نہ کوئی کردار گانے بجانے کے کیرئر سے وابستہ تھا۔ ان چیزوں میں فرق کرنا سیکھیں۔
سوال:Ants Everatfterکا کیا مطلب تھا؟ جواب : یعنی کہ ٹھیک ہے‘ تم ہمیں چیونٹیاں کہتے ہو تو ہم ہمیشہ چیونٹیاں ہی رہیں گے۔ ہم نے اپنی اس حیثیت کو قبول کر لیا ہے اور اسی حیثیت میں تمہیں شکست دیں گے۔ یہ happily everafter کے مقابلے پہ تھا۔
سوال: ہاشم کا کردار اتنا کنفیوز کیوں تھا؟ کبھی وہ بہت اچھے کام کرتا کبھی برا بن جاتا تھا؟ جواب : بالکل جیسے آپ اور میں خود ہیں۔ کبھی اچھے۔ کبھی برے۔ اس کو انسان کہتے ہیں۔ صرف اچھے فرشتے ہوتے ہیں اور صرف برے شیطان۔
سوال: بعض جگہوں پر لگا کہ نمل کو غیر ضروری لمبا کیا گیا۔آپ کیا کہیں گی؟ جواب : ہر رائٹر سے کوئی نہ کوئی کمی بیشی رہ جاتی ہے۔ بعد میں آپ اس کا جائزہ لیتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں۔ لیکن میں نمل کو ایک طویل میلو ڈرامے کے طور پہ ہی لکھ رہی تھی۔ مجھے ابھی تک نہیں لگتا کہ یہ کہیں بھی غیر ضروری طویل تھا کیونکہ جو کچھ بھی لکھا وہ اس کے لیے ضروری تھا۔ اور اگر ایسا ہو بھی تو کوئی بات نہیں۔ آئیندہ کے لیے میں اس سے سبق لوں گی۔ زندگی میں کسی بھی چیز کو برا تجربہ سمجھ کے اس پہ افسوس کرنا اور دل میں اس پہ ہر وقت پچھتاتے رہنا درست نہیں۔ کوئی بھی غلطی یا گناہ برا تجربہ نہیں ہوتی اگر آپ اس سے کچھ سیکھ رہے ہیں۔
سوال: آپ نے نمل میں وکالت، عدالت اور کورٹ ٹرم سے متعلق جو معلومات بیان کیں اس کے لئے آپ نے کتابیں پڑھیں؟یا وکیلوں سے ملیں؟ جواب : میرا خیال تھا رائٹرز کی ریسرچ ورک میں مدد کے لیے سب سے برے لوگ جن سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے و ہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔ انتہائی برے۔ کوئی کام نہیں کر کے دیتے۔ کسی سوال کا ٹھیک سے جواب نہیں دیتے لیکن وکیلوں سے واسطہ پڑنے کے بعد میں اتنا کہہ سکتی ہوں کہ ڈاکٹرز تو بہت بہتر تھے۔ میں بغیر کسی معذرت کے یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں بڑے بڑے لاء پروفیسرز اور وکلاء سے ریسرچ ورک کے لیے جب بات کرتی تھی تو یقین کریں ‘ مجھے ان سے زیادہ قانون کا پتہ ہوتا تھا۔ وہ بات کو اتنا گھماتے پھراتے ہیں‘ اور مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا ہے کہ وہ ایسا بد نیتی کی وجہ سے کرتے تھے کہ کہیں کسی کو ہمارے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو جائے۔ یہ بات آ پ کو اچھی نہیں لگے گی مگر وکیلوں میں سے دو ایک کے علاوہ کسی نے میری مدد نہیں کی۔ میں ان کو قانون کے آرٹیکلز پڑھ کے بتاتی تھی کہ جناب مگر یہاں تو یہ لکھا ہے۔ میں یہ نہیں یہ پوچھ رہی ہوں۔ اینڈ دے ور لائک...اوہ ہاں اس کا تو مجھے خیال ہی نہیں آیا۔ اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں کیسز کیوں اتنے لمبے لمبے لٹکتے ہیں۔ وکیل ہوں یا جج‘ میں نے ان کو فوکسڈ نہیں پایا۔ مجھے قانون دی گڈ وائف نے زیادہ سکھایا بہ نسبت وکلاء کے۔ آمنہ آفتاب‘ سامعہ اقبال اور میم وردہ جیسے اچھے لوگوں کا ساتھ تھا تو یہ کام اچھے سے ہو پایا۔ ورنہ...
سوال: آپ کی کہانیوں میں فیمیل کریکٹرز بہت سٹرونگ ہوتے ہیں جیسے جواہرات‘حنین‘زمر‘ اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ؟ جواب : کیونکہ میں عورتوں کو اتنا ہی اسٹرانگ دیکھنا چاہتی ہوں۔
سوال: تدبر لکھتے ہوئے آپ کو کبھی ڈر لگا کہ کوئی غلطی یا کمی بیشی نہ کر بیٹھیں؟ جواب : ہمیشہ لگتا ہے اور کتابی شکل میں میں نے چند غلطیوں کی تصحیح بھی کی۔ لیکن میں ان لوگوں میں سے نہیں جو ڈوبنے کے ڈر سے تیرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ غلطی ہو‘ انسان اسے ٹھیک کر لے‘ توبہ کرے اور آگے بڑھ جائے۔
سوال: کیسے فارس جہان کی طرح ’’ون مین شو‘‘ تھا؟ کیسے اس کا کوئی پلان ناکام نہیں ہوتا تھا؟ جواب : فارس کے تو بہت سے پلان ناکام ہوئے۔ وہ ایک دفعہ پھر جیل میں پھنس گیا۔ ہاشم کے بہت سے پلان کامیاب ہوئے تھے فارس کے خلاف۔ دوبارہ ناول کو پڑھیں۔ یہاں تک کہ آخری قسط میں بھی فارس کے اندازے غلط نکلتے ہیں۔ لیکن فارس ناکامی کے بعد بھی راستہ ڈھونڈ کے خود کو نکال لیتا تھا اپنی نیک نیتی کی وجہ سے۔
سوال : فارس کو یہ خدشہ کیوں تھا کہ ’’کارما ‘‘ میری گھات میں بیٹھا ہے؟ جواب : جب آپ اتنے لوگوں کو بلیک میل کریں‘ اتنا کچھ چرائیں‘ جیل میں ہر دوسرے بندے کو مار پیٹ کریں اور بہت سی لکیریں عبور کریں اور آپ کا ضمیر زندہ ہو تو میں یہ نہیں دکھا سکتی کہ آپ مطمئن رہیں گے۔ بھلے جو آپ کریں اس کی سو توجیہات ہوں ۔ بھلے برابر کا بدلہ جائز ہو مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ پھر پہلے جیسے انسان بن سکتے ہیں۔ یہی تو انسانی دل کی بات ہے کہ وہ ایک دریا میں دو دفعہ نہیں اتر سکتا۔
سوال: تدبر کرتے ہوئے آیت کو اپنی زندگی سے ریلیٹ کرتے مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں من چاہا مطلب نہیں نکال رہی یا خواہشِ نفس کی پیروی نہیں کر رہی؟ جواب : اس کے لیے آپ کو اپنا عمل درست کرنا ہوگا اور اپنے لیے دعا کرنی ہو گی۔ جتنا اچھا آپ کا عمل ہو گا اتنا اچھا آپ کا تدبر ہوگا۔ آپ کو علم بھی حاصل کرنا ہو گا اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی ہوگی تاکہ وہ آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں کیونکہ انسان اپنا چہرہ ہر وقت خود نہیں دیکھ رہا ہوتا۔
سوال: کیا حنین اس سٹیج پر پہنچ گئی تھی کہ اسے نہ ہاشم سے محبت محسوس ہوتی نہ نفرت؟ جواب : میرا خیال ہے‘ ہاں۔
سوال: ہاشم کا کردار کس سے انسپائر ہو کر لکھا گیا؟ جواب : ہاروی سپیکٹر سے انسپائرڈ ہو کے بہر حال نہیں لکھا تھا۔ چونکہ ہاشم کے سوٹ قیمتی ہوتے تھے اس کی ایک شاندار پرسنالٹی تھی اور تازہ وکلاء والا ڈرامہ سوٹس چل رہا تھا ان دنوں تو میں نے اس بات کو بہت انجوائے کیا کہ لوگوں نے اس کو ہاروی سے ملایا ہے۔ مگر ہاروی کے اسپائکس والے بال ہوں یا اس کی مزاحیہ شخصیت یا اس کے دل کی اچھائی...اس کے سچ بولنے کی عادت اور انصاف پسندی ہو...یہ سب ہاشم سے بالکل برعکس تھا۔ امریکی ڈراموں میں وکیل کو ہمیشہ بہترین سوٹ اور بہترین ہئیر کٹ میں دکھایا جاتا ہے اور مجھے بھی ایسے ہی دکھانا پسند تھا۔
سوال: ایک بہترین رائٹر بننے کے لئے کیا ضروری ہے؟ جواب : کسی بھی فیلڈ میں بہترین ہونے کے لیے چار چیزیں ہونی چاہئیں۔ ٹیلنٹ۔ (یہ اللہ دیتا ہے اور انسان وقت کے ساتھ اس کو پہچان لیتا ہے) تکنیک (یہ کام کرنے کا فن ہے جو انسان سیکھتا ہے اور اس کو پالش کرتا ہے‘ دوسروں کے کاموں کا جائزہ لیتا ہے‘ اپنی فیلڈ کے متعلق علم حاصل کرتا ہے‘ اور کسی حد تک یہ اس کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔) ٹمپرامنٹ ( یہ آپ کی اپنے محاسبے‘ اپنا جائزہ لینے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی خصوصیت ہوتی ہے۔ تنقید سے سیکھنے اور خود کو بہتر کرنے کا ظرف) اور آخر میں passion (اس کے بغیر آپ کے کام میں جان نہیں آ سکتی)۔ ا ن چار چیزوں میں سے اگر کوئی ایک چیز بھی آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگر یہ چاروں آپ حاصل کر لیتے ہیں تو آپ بہت آگے جائیں گے۔ ٹیلنٹ اور پیشن ہر انسان کے پاس کسی ایک کام کے لیے ضرور ہوتا ہے۔ باقی دو کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔
سوال: احمر کا کیا بنا؟ جواب : دو ممکنہ حالات تھے۔ یا تو وہ نئی زندگی گزارنے لگا۔ یا وہ مر گیا۔ سعدی نے یہ اخذ کیا کہ وہ نئی زندگی گزارنے لگا ہے ۔ آپ کو جو اچھا لگتا ہے آپ وہی اخذ کر لیں۔ میں نے اس کو مبہم چھوڑا ہے۔ ایک فراڈکردار کا انجام بہت سچا نہیں کرنا چاہتی تھی میں۔
سوال: فارس نے زمر سے اپنے تمام پلانز شیئر کیوں نہیں کیے؟ جواب : فارس کے پلانز تھے‘ فارس کی مرضی۔
سوال: آپ کی نظر میں آبدار صحیح تھی یا غلط؟ جواب : میں اس کو جج نہیں کروں گی۔ بچہ اور بیمار برابر ہوتا ہے۔
سوال: حنین جیسی ذہین اور تیز لڑکی کیسے ہاشم کے جال میں پھنس گئی۔ جواب : جب وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوئی تو اس کو ہاشم کی اصلیت نہیں پتہ تھی۔ مگر آپ لوگوں کو تو شروع سے پتہ تھی نا۔ اس کے ایک ایک کالے کرتوت کا علم تھا آپ کو۔ اور آپ نے تو اس کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ پھر بھی آدھی آبادی اس سے محبت کرتی ہے اور اس کے انجام پہ دکھی ہے۔ کچھ تھا اس میں تو لوگ اس سے محبت کرتے تھے نا۔ اور محبت بھی بیماریوں کی طرح ہوتی ہے۔ یہ انسان کی عقل دیکھ کے نہیں لگا کرتی۔ بس لگ جاتی ہے۔ سوال: کیا برے لوگ کبھی نہیں بدلتے؟ جیسے ہاشم کی ماں؟ اس سوال کو میں نے حالم میں ڈسکس کیا ہے۔
سوال: نمل کتنے عرصہ میں مکمل ہوا؟ جواب : تین سال سے کچھ زیادہ۔
سوال: کیا آپ کو لاکر توڑنا آتا ہے؟ جواب : مجھے چائنہ والا تالہ توڑنا بھی نہیں آتا۔
سوال: کیا آپ کے ناول کا اگلا ہیرو آرمی سے ہو گا؟ جواب : میں جب آرمی پہ ناول لکھوں گی تو ہیرو کی جگہ ہیروئن آرمی سے لوں گی۔
سوال: نمل میں کون سا سین لکھنا مشکل تھا آپ کے لئے؟ جواب : فارس کے کچھ سین۔ بہت مشکل تھے۔
سوال:نمل میں پوئٹری کا ہونا ایک نیا انداز تھا یہ خیال آپ کو کیسے آیا؟ جواب : پرانی اردو داستانوں میں یہ تکنیک استعمال ہوتی تھی۔
سوال: کیاہاشم کبھی سعدی کو قید کے دوران مارنے کا سوچتا ہے؟ جواب : ہاشم اسے کبھی بھی نہ مارتا۔ وہ سعدی کو پسند کرتا تھا۔ بس اس کا لوگوں سے محبت کرنے کا طریقہ weird تھا۔ وہ ہر ایک کو اپنے سے باندھ کے رکھنا چاہتا تھا چاہے وہ محبت کی رسیوں سے باندھے‘ احسانوں کی رسی سے‘ لاڈ پیار کی رسی سے یا اصلی رسی سے۔
سوال: کیا کبھی ایسی سچوئیشن آئی کہ آپ آگے نہ لکھ پائی ہوں؟ اگر ایسا ہوا تو آپ نے سٹوری کو کیسے آگے بڑھایا؟ جواب : میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں۔ جب آپ دین کے لیے لکھنے لگتے ہیں تو آپ کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ بار بار رکاوٹیں آتی ہیں اور پھر آپ کو بڑی مشکل سے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ جو مجھے رکاوٹ آئی تھی وہ شہد کی مکھی والے قصے میں تھی مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس میں سے اللہ نے نکال دیا۔
سوال: سونیا جواہرات کو کہاں ملی ؟ جواب : میں نے یہ بات ناول میں نہیں بتائی۔ لیکن میں نے آپ کو جواہرات کی دولت‘ ذہانت اور طاقت کا ضرور بتایا ہے۔ اگر سعدی کا خاندان دولت اور طاقت کے بغیر چند ماہ میں اسے ڈھونڈ سکتا ہے تو جواہرات بھی چند سالو ں میں اسے ڈھونڈ سکتی ہے۔ یہ ناول کے بنیادی conflict کے لیے غیر اہم تھا۔
سوال: پہاڑی کا قیدی جس تناظر میں لکھی گئی نمل میں مختلف نظریہ دیکھنے کو ملا ایسا کیوں؟ جواب : اگر آپ یہ پوچھ رہی ہیں کہ اس وقت میں نے ایک تحریر لکھی جو اس وقت کے چیف جسٹس کے حق میں تھی اور اب میں نے اس تحریک کے خلاف لکھا تو آپ غلط ہیں۔ مجھے دس دفعہ موقع ملے‘ میں دس دفعہ پہاڑی کا قیدی لکھوں گی۔ مجھے اس پہ فخر ہے۔ کیونکہ میں نے وہ ایک انسان کے لیے نہیں لکھی تھی‘ کیونکہ اگر لکھی ہوتی تو میں بھی سپریم کورٹ میں کوئی اپنا کیس لیے اگلے ہی دن کھڑی ہوتی۔ میں نے وہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے لیے لکھی تھی اور نمل بھی اسی کا حصہ ہے۔ میں نے نمل کے ذریعے آپ کو یہ سمجھایا ہے کہ یہ مت سمجھیں اس تحریک کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ہم پاکستانیوں کا یہی مسئلہ ہے کہ ہم جدوجہد کے مقصد کو سمجھتے نہیں ہیں۔ وہی مثال یاد رکھیں۔ بار بار لڑنا ہے اور ہر دفعہ ہار آپ کو مضبوط کرے گی اور دشمن کو کمزور۔ یہ ساری تحاریک ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ اگر سعدی نے اس پہلی تحریک میں حصہ لیا تھا تو اس میں اتنی ہمت آئی تھی‘ اتنا شعور آیا تھا کہ وہ اپنے لیے کھڑا ہو سکتا۔ بھلے اس تحریک نے وکلاء کو مہنگا اور پر تششدد بنا دیا اور ججز کو متکبر مگر جو شعور اس سے لوگوں نے سیکھا وہ کوئی بھی unlearn نہیں کر سکتا۔
سوال: جواہرات جیسی مغرور عورت کیسے طیب جیسے بے کار آدمی کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتی ہے ؟ کچھ عجیب بات نہیں؟ جواب : جس زمانے کی یہ بات ہے تب وہ اس کا کزن تھا اور اس کا کزن اس جتنا ہی امیر اور خوش شکل تو ہوگا نا۔ اور اگر آپ جواہرات جیسی خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس سے زیادہ حقیقی بات کوئی نہیں لگے گی۔
سوال: ڈاکٹر ایمن کی ڈائمنڈ رنگ کہاں گئی تھی؟ جواب : اس نے ایک بچی کو اغوا کیا اور اس کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ یقیناََ اس نے اپنی رنگ کو بیچ کر بہت سی ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔
سوال: ہاشم کے تو اتنے ریسورسز تھے کیسے وہ چھ ماہ تک اپنی بیٹی نہ ڈھونڈ سکا؟ جواب :چھے ماہ تک؟ ہاشم تو بیٹی کی گمشدگی کے چھے دن بعد غالباََ گرفتار ہو گیا تھا۔ بعد میں اس کی ماں نے بہر حال اس کو ڈھونڈ لیا تھا۔۔
سوال: نمل کے کس کردار کو مِس کرتی ہیں؟ جواب : کسی کو بھی نہیں۔ ناول کے آخری الفاظ لکھنے کے ساتھ وہ کردار آپ کے لیے امر ہو کے ختم ہو جاتے ہیں۔ میں اس وقت تالیہ اور فاتح میں زیادہ انٹرسٹڈ ہوں۔
سوال: آپ نے Footnotesپورے ناول میں استعمال کیوں نہیں کیے؟ جیسے لیگل ٹرمز وغیرہ۔ جواب :مجھے فٹ نوٹ پسند ہی نہیں ہیں۔ ناول میں یہ آپ کی توجہ بٹاتے ہیں۔ نہیں؟
سوال: کیا دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے اپنی معصومیت اور شرافت کو کھونا پڑتا ہے جیسے فارس اور سعدی نے کھوئی؟ جواب : جیسے جیسے آپ گرو کرتے ہو یہ چیزیں آپ کھوتے جاتے ہو۔ کسی حد تک۔ کامیابی یا ناکامی کا اس سے تعلق نہیں۔ حالات کی سنگینی کا ہے۔
سوال: کیا آپ کے اگلے ناول میں سعدی جیسا کوئی کردار ہو گا؟ جو قرآن کو سمجھتا اور پڑھتا ہو گا؟ جواب : میرا اگلا ناول قرآن پہ کم اور سیرت نبوی ﷺ پہ زیادہ فوکس کرتا ہے۔ اس سے متعلقہ کردار ہے کہانی میں۔
سوال:کئی دفعہ حنین اور سعدی نے نوشیرواں کا مذاق بنایا کیا یہ غلط نہیں تھا؟ جواب : بالکل غلط تھا اور پھر ان دونوں نے اس کی سزا بھی کاٹی۔ لیکن سزا جرم سے بڑی تھی۔ مگر یہ دکھانے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بغیر وجہ کے نہیں آپ کو گولیاں مارتا۔ آپ نے کچھ تو کیا ہوتا ہے بھلے وہ بہت چھوٹا جرم ہی کیوں نہ ہو۔
سوال: زمر ایک مضبوط عورت تھی اس کی کوئی دوست کیوں نہ تھی؟ جواب : وہ ذرا تنہائی پسند اور اکھڑ تھی۔ اس کے کردار کے ساتھ یہی میچ کرتا تھا۔
سوال: آپ نے مختلف مسائل پر لکھااور قرآن کے ذریعے حل بتایا، آپ پہلے مسائل منتخب کرتی ہیں یا آیت؟ جواب : یہ دلچسپ بات ہے کہ میں نے ملکہ کا باب پہلے سوچا تھا اور اتفاق سے اسی باب میں ملکہ سبا والی آیات آگئیں۔(یا شاید یہ چیزیں کہیں اور طے ہوتی ہیں۔) میں جس موقعے پہ آیات ڈالتی تھی‘ اس وقت آیات کو ان کرداروں اور اپنے ساتھ ریلیٹ کر کے analyze کرتی تھی‘ یوں جو اینگل میرے سامنے آتا تھا میں اس پہ لکھتی تھی۔
سوال: نمل سے وابستہ کوئی بہترین یاد؟ جواب : مجھے زمر فارس کی ٹینشن بہت پسند تھی۔ اور ایک سوال ہوا تھا کہ نمل کا کوئی حصہ جس کو آپ اچھے سے نہ لکھ سکی ہوں تو وہ حنین کا DIY ہوم ری ماڈلنگ والا کام تھا جس کے بارے میں میں بہت کچھ لکھنا چاہتی تھی لیکن وہ ناول کے دائرہ کار سے نکل جاتا تو اس کو میں حنین کی ڈائری کی صورت انشا ء اللہ لکھوں گی ۔ مجھے صرف تھوڑا سا وقت مل جائے یا حالم کے بعد ...مجھے حنین کی وہی ڈائری بنانی ہے جو نمل کے آخر میں آپ نے حنین کو چھپواتے ہوئے دیکھا تھا۔اور اس میں حنین آپ کو اپنی اور اپنے مورچال کی کہانی سنائے گی ۔ ان شاء اللہ۔
سوال: عموماً لوگ خواتین کو بطور وکیل پسند نہیں کرتے ،کیوں زمر نے ایسا کچھ فیس نہیں کیا؟ جواب : ناول کے درمیان میں کئی جگہ اس کو کورٹ میں برے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔میں اس سے زیادہ ایک خاتون وکیل کی تحقیر نہیں کر سکی۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔
سوال: ہم بہت لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں لیکن ہر وقت فتویٰ نہیں لگا سکتے تو کیسے کریںیہ کام؟ عمل کے علاہ؟ جواب : ٹھنڈی میٹھی زبان سے‘ اور اپنے عمل سے۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کرتے تھے۔
سوال: نمل کے کردار سرمئی تھے، کیا ہمیں اپنی زندگیوں میں اس سرمئی پن کو قبول کر لینا چاہیے ؟آپ نہیں سمجھتیں کہ کچھ چیزوں میں ہمیں بلیک اینڈ وائٹ ہونا چاہیے؟ جواب : قبول کرنا مقصد نہیں تھا۔ قبول کرنے کا تو مطلب ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ جانا ہے۔ مایوس نہ ہونا اور ہر پل خود کو بہتر کرتے رہنا مقصد تھا۔ نمل کا مقصد خود کو پہچاننا‘ خود کو تسلیم کر لینا اور پھر اپنے سیاہ حالات میں بھی امید کا دیا جلائے رکھنا اور ہر پل خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرنا تھا۔
سوال: لوگوں پر نمل پڑھنے کا کیا اثر دیکھا آپ نے؟ جواب : میں نے لوگوں کو ہیرو ہیروئن کے اسٹیرئیو ٹائپ سے آزاد ہوتے دیکھا۔ ان کو انسانی سائیکالوجی کو زیادہ بہتر طور پہ سمجھتے دیکھا۔ ان کو پہلے سے کم جج مینٹل ہوتے دیکھا۔ توبہ کا اصل مقصد سمجھتے دیکھا اور خود کو معاف کر دینے کی اہمیت اجاگر ہوتے دیکھی۔
                    ****************************************************
اب بات کرتے ہیں ’’ حالم‘‘ کی۔
سب سے پہلے تو میں حالم سے آپ کا تعارف کرواتی ہوں اور پھر میں آپ کو ان اعتراضات کا جواب دوں گی جو حالم کو لکھنے سے ’’پہلے‘‘ کیے گئے۔ ’’بعد‘‘ والوں کا جواب حالم کے بعد ان شاء اللہ۔
حالم کا مطلب ہے خواب دیکھنے والا۔ Visionary۔ یہ خواب جاگتی آنکھوں والے بھی ہو سکتے ہیں جیسے اقبال کا خواب تھا۔ یا دوسرے بھی ہو سکتے ہیں جو لوگ سوتے اور جاگتے دونوں میں خوابوں اور وژن کی صورت میں دیکھتے ہیں۔
حالم بنیادی طور پہ ایک سوپر نیچرل ایڈونچر فینٹیسی ہے‘ اور سب سے بڑھ کے یہ ایک پولیٹیکل تھرلر ہے۔ اس کا یونرا genre سوپر نیچرل یعنی مافوق الفطرت ہے‘ جس میں ایڈونچر بھی ہے اور مسٹری بھی اور اس کا تھیم سیاسی ہے چاہے وہ ملکی سیاست ہو یا آفس پولیٹکس۔ نمل جیسے فیملی کے گرد گھومتا تھا‘ حالم کولیگز ‘ دوستوں اور ٹیم ورک کے درمیان گھومتا ہے۔
اب آج آپ نے ایک بات کو اچھے سے سمجھ لینا ہے کہ سوپر نیچرل ہوتا کیا ہے۔ کیونکہ کچھ قارئین نے حالم پڑھنے نے کے بعد کہا کہ یہ غیر حقیقی ہے۔ جبکہ میرے ساتھ تین دفعہ آپ( ابھی نہیں‘ ناول ختم ہونے کے بعد ) دہرائیں گے ان شاء اللہ کہ سال 2017 میں آپ کو حالم سے زیادہ حقیقت پہ مبنی ناول نہیں ملے گا۔ حالم غیر فطری نہیں‘ فطرت سے اوپر ہے۔ ان دونوں میں فرق ہوتا ہے اور میں یہ فرق ایک مثال سے آپ کو سمجھاتی ہوں۔
آپ ہیری پوٹر کی مثال لے لیں۔۔۔ نہیں نہیں توبہ استغفراللہ وہ تو کافروں کا تھا...سوری... اپنے حلال سوپر نیچرل’’ عینک والا جن‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ اس میں ایک سین تھا جب نستور جن کے پاس ایک سلیمانی انگوٹھی ہوتی ہے جو جب تک وہ پہنے رکھے گا کوئی شیطانی قوت اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی۔ ایسے میں وہ ایک ایسی وادی پہنچتا ہے جہاں زیبا شہناز جو کہ ایک چڑیل تھیں‘ ایک بڑھیا کا روپ دھارے کنویں میں بیٹھی تھی۔ اب اس نے نستور کو مارنا تھا مگر چونکہ نستور نے سلیمانی انگوٹھی پہن رکھی تھی تو وہ اس سے اداکاری کرتے ہوئے رو رو کے کہتی ہے کہ اس کو کنویں سے آزادی تب ملے گی جب نستور یہ انگوٹھی اس کے سر پہ رکھے گا۔ اور نستور ٹھہرا سدا کا ہیرو۔(ویسے کیا کردار تھا وہ بھی۔) وہ انگوٹھی اتار کے چڑیل کے سر پہ رکھ دیتا ہے بھلے ہم دیکھنے والوں کی سانسیں بند ہو جائیں۔ یوں جیسے ہی اس کو انگوٹھی ملتی ہے وہ چڑیل بن جاتی ہے اور نستور کو قید وغیرہ کر لیتی ہے۔ اب چونکہ یہ مافوق الفطرت تھا تو ہر مافوق الفطرت کہانی کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ اگر نستور نے سلیمانی انگوٹھی پہن رکھی ہے تو چونکہ رائٹر نے بتایا ہے کہ اس انگوٹھی کے ساتھ کوئی اسے نقصان نہیں دے سکتا تو بس...اب اسے کوئی نقصان نہیں دے سکتا اور ہم سب اس کو تسلیم کرتے اور انجوائے کرتے ہیں۔یہ ’’مافوق الفطرت‘‘ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ دکھاتے کہ انگوٹھی کے باوجود زیبا شہناز ایک دم سے اس پہ کوئی منتر پڑھ کے اس کو قید کر لیتی ہیں اور رائٹر کہتا کہ بھئی جنوں بھوتوں کی کہانی ہے اس میں سب ممکن ہے تو یہ ’’غیر حقیقی‘‘ چیز ہوتی اور دیکھنے والا اس پہ ناگواری کا اظہار کرتا اور کہتا یہ کیا؟ ہم سے دھوکہ کیوں ہوا ہے؟ پہلے تو کچھ اور کہا تھا۔ یہ فرق ہے حقیقت سے اوپر کی چیز اور غیر حقیقی چیز میں۔ سوپر نیچرل بھی اتنا ہی حقیقی ہوتا ہے جتنا نیچرل ناول ہوتا ہے۔ بس اس میں کچھ واقعات یا تھیم ایسے ہوں گے جن کی سائینس یا آپ کی عقل تشریح نہیں کر سکتی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ بالکل جیسے سائینس یہ نہیں بتا سکی کہ اہرام مصر کیسے بنائے گئے تھے...جنات کی شکلیں کیسی ہوتی ہیں.. .رسول اللہ ﷺ نے جب معراج کا سفر فرمایا تھا تو پیچھے وقت کیسے رک گیا تھا...سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک آدمی جس کے پاس کتاب کا علم تھا ہزاروں میل دور سے پلک جھپکتے میں ملکہ سبا کا تخت کیسے لے آیا تھا....یہ ساری سوپر نیچرل حقیقتیں ہیں جو دنیا میں ہوتی ہیں اور جب اس طرح کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں تو اس کو ایک الگ یونرا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو غیر حقیقی نہیں کہا جاتا۔ اس کے کرداروں کے جذبات اور احساسات بھی اتنے ہی حقیقی ہوتے ہیں جتنے نیچرل ناولز کے۔ جادو کی چھڑیاں بھی ہوں سوپر نیچرل میں تو بھی کرداروں کے جذباتی اور معاشرتی مسائل چھڑی گھمانے سے ٹھیک نہیں ہو جاتے۔(کافروں والے ناول کی مثال یاد رکھیں۔)
حالم میں بھی آپ کو دو تین تھیمز بالکل مافوق الفطرت ملیں گی اور آپ نے ان کو ویسے ہی پڑھنا ہے جیسے آپ عینک والے جن کو دیکھتے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے سے نکل کے ’’اس سچوئیشن میں یہ کردار کیا کرتے ہیں‘‘ کی طرف جانا ہے۔ آج دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناولز چاہے وہ ہیری پوٹر ہو‘ ٹوالائٹ ہو یا لارڈ آف دی رنگز‘ ان میں سے اکثریت سوپر نیچرل کی ہی ہے۔ جب تک کہانی دلچسپ ہے نا‘ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ فطری ہے یا مافوق الفطرت ۔ یہاں تک سمجھ آگیا آپ کو؟
اب سوال آتا ہے کہ نمرہ نے اگلا ناول نمل سے اتنا مختلف کیوں لکھا؟
جیسے مصحف‘ پریشے کی زندگی سے مختلف تھا‘...جیسے حیا کی زندگی اور محمل کی زندگیاں فرق تھیں.....اور جیسے نمل کی کہانی پچھلے تمام کام سے مختلف تھی ویسے ہی میں جب بھی لکھتی ہوں‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ پچھلے کام سے ہٹ کے ہو۔ جنت کے پتے کی تکمیل کے بعد مجھے ادارے نے کہا کہ نمرہ اب آپ نئے ناول کا ہیرو بالکل سو فیصد جہان جیسا لکھئے گا۔ میں نے کہا وہ سو فیصد جہان سے مختلف ہی تو لکھنا ہے میں نے کیونکہ مجھے اگر وہی چیز دوبارہ لکھنی ہے تو میں نے اس کو ختم کیوں کیا تھا؟ پارٹ ٹو لکھ ڈالتی! اب یہاں پہ دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو چاہتے ہیں کہ حالم بالکل نمل جیسا ہوتا۔ وہی گھریلو حنین‘ وہی اسلام آباد کی سڑکیں‘ وہی مکالمے مگر یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے اپنے کام کا سوچنا ہے‘ اپنے کام کے ساتھ ایمانداری کرنی ہے۔ میں نے ہر ممکن طور پہ نمل کی پرچھائیں سے بچنا ہے۔۔ دوسری طرح کے لوگ وہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ نمرہ کے نئے ناول میں نمل تو کیا کسی دوسرے پرانے ناول کی بھی رتی برابر جھلک نہ آئے۔ بحیثیت انسان میرے لیے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کہیں نہ کہیں جھلک آ جاتی ہے اور اٹس اوکے۔ اتنا تو چلتا ہے۔ لیکن جو بات آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مجھے ہر ناول کی پہلی قسط پہ پچھلے ناول کی آخری قسط سے موازنے کا سامنا رہتا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں ‘ رائٹر نہیں بھولتا۔ اسے یاد ہوتا ہے کہ جنت کے پتے کی پہلی چار پانچ اقساط تک اس کو مصحف کے مقابلے میں بے کار قرار دیا جاتا تھا اور نمل نے روانی نویں قسط کے بعد پکڑی تھی۔ حالم کا مجھے ان سب سے زیادہ جلدی اور اچھا رسپانس ملا ہے کیونکہ مجھے ایک ایک کمنٹ‘ ایک ایک تبصرہ اور ایک ایک تنقید یاد رہتی ہے۔ حالم صفحات کی کمی کے مسئلے کی وجہ سے ابھی آپ زیادہ پڑھ نہیں پائے (اس مسئلے کا بھی آئیندہ ماہ سے ایک بہترین حل نکال لیا ہے‘ اللہ کا کرم ہے) ورنہ آگے جا کر ایک وقت آئے گا جب آپ جانیں گے کہ آپ کو اس سال میں پاکستانی ناولز میں اس سے زیادہ اچھے ناولز تو بہت مل جائیں مگر اس سے زیادہ حقیقت کے قریب ناول کوئی نہیں ملے گا۔
پھر مجھے یہ بھی کہا گیا کہ سوپر نیچرل کی ہماری لڑکیوں کو سمجھ نہیں آئے گی... یو نو... گاؤں دیہات کی لڑکیاں جو بے چاری سی ہوتی ہیں‘ ان کی عقل سے یہ اوپر ہے ۔
میں دس سال سے لکھ رہی ہوں اور میں ایک بات جانتی ہوں کہ میرے قارئین میرے جتنے ذہین نہیں ہیں۔ وہ مجھ سے کہیں زیادہ ذہین اور تیز ہیں۔ وہ اتنی باریکی سے پڑھتے ہیں ‘ ایک ایک بات نوٹ کرتے ہیں کہ اب ان کو گھمانا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اور تو اور ان کو نمرہ کا اتناا عتبار بھی نہیں رہا کہ جس کردار کے لیے میں قسمیں بھی کھا لوں اس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے ایڈم۔ ایڈم پہلے ویسے ایک جن کا کردار تھا جو انسانوں کی دنیا میں آتا ہے۔ مگر میں نے ناول کے سیکنڈ ڈرافٹ میں اسے انسان ہی بنا دیا کیونکہ یہ سب سے خالص اور سچا کھرا کردار ہے اور اس کا انسان بننا انسپائریشنل ہو سکتا تھا۔ (حالم میں سب انسان ہی ہیں‘ کوئی جن نہیں ہے۔یہ نہ ہو اب اس بات کو لے کر سب اندازے لگانے لگ جائیں) تو میرا ماننا یہ ہے کہ جہاں جہاں ڈائجسٹ جاتا ہے وہاں وہاں بے حد سمجھدار لوگ بستے ہیں جو عینک والا جن دیکھ کے بڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے غیر ملکی کہانیاں‘ ڈرامے ‘ فلمیں...سب کچھ دیکھ رکھاہے اور ان کو سوپر نیچرل کی سمجھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی قاری کے منہ سے اس کے اپنے لیے یہ نہیں سنا کہ میں کم ذہن ہوں‘ مجھے سمجھ نہیں آئے گی۔ یہ عموماََ بہت سمجھدار قسم کے اینٹی فینز ہوتے ہیں جو بڑی ہمدردی سے مجھے آ کے کہتے ہیں کہ ہمیں تو آ جائے گی سمجھ مگر دوسری بے چاری لڑکیوں کو نہیں آئے گی۔ تو تسلی رکھیں اور ان دوسری لڑکیوں کی فکر میرے اوپر چھوڑ دیں۔ اگر ان کو سمجھ نہیں بھی آئے گی تو اس میں میری ہی کمی کوتاہی ہوگی‘ ان کی سمجھداری کا قصور نہیں ہو گا۔
اگلا اعتراض یہ تھا کہ اچھا لڑکیوں کو تو آ جائے گی‘ ماؤں کو نہیں آئے گی۔
اچھا واقعی؟ مطلب کہ سارے خاندان میں ماشا ء اللہ لڑائیاں کروا اور سلجھا سکتی ہیں ہماری خواتین... اپنے بچوں کی پیدائش کے کیلنڈر کے حساب سے ایک ایک واقعہ یاد ہوتا ہے ان کو...ایک نظر میں کسی کے گھر کے کونوں کھدروں سے لے کر تاثرات تک دیکھ کے شیرلاک کی طرح اس کے پچھلے ہفتے کی ساری خوشی غمیوں کے اندازے لگا سکتی ہیں‘ مگر ان کو ایک سوپر نیچرل ناول نہیں سمجھ آئے گا؟ واللہ میں یہ نہیں مان سکتی۔ ہماری خواتین کو اتنا کم علم اور کم ذہن نہ میں نے پہلے کبھی سمجھا ہے نہ اب سمجھتی ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اپنی سمجھداری اور کھلے ذہنوں سے وہ ان اینٹی فینز کو غلط ثابت کر کے دکھائیں گی۔
’’پاکستانی عوام سوپر نیچرل کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی ایک نکتہ تھا۔یہی نکتہ حجاب پہ لکھنے یا قرآنی تدبر پہ لکھنے یا پہاڑی کا قیدی لکھنے سے پہلے بھی میرے پاس رکھا گیا تھا اور میں نے تب بھی وہی کہا تھا وہ اب کہتی ہوں۔ دنیا میں جب بھی کوئی untrodden pathways پہ چلتا ہے نا.. تو اس کو لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ایسے راستوں پہ جہاں چلنے سے لوگ کتراتے ہیں.. ان پہ چلنے والے کا پہلے مذاق اڑایا جاتا ہے ....پھر اس کی تحقیر کی جاتی ہے ..... پھر اس سے لڑا جاتا جاتا ہے اور پھر وہ نئے راستوں کا مسافر ...جیت جاتا ہے ! پاکستان میں سوپر نیچرل بہت کم لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ان ٹروڈن پاتھ وے ہے ۔تو کیامیں تنقید اور مخالفت کے ڈر سے اس کا رخ ہی نہ کروں؟ مگر جس نمرہ کو آپ پڑھتے ہیں اس کو آپ اسی لیے پڑھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ایسے ہی راستے منتخب کرتی ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتی کہانیوں سے نکل کے بین الاقوامی طرز کا لکھیں۔ مگر مجھے یہ بھی اچھا نہیں لگے گا اگر میرا دفاع کرتے ہوئے میرے قارئین کہیں کہ ’’کیا آپ لوگوں کو صرف ساس بہو کی کہانیاں پڑھنی ہیں؟‘‘ نہیں۔ ساس بہو کی کہانیاں ہمیشہ لکھی جاتی رہنی چاہیں تاکہ لوگ ان سے ریلیٹ کرتے رہیں۔ سب کچھ لکھا جانا چاہیے۔ اور سوپر نیچرل بھی ۔مرڈر مسٹری بھی۔ سائنس فکشن بھی۔
پاکستان پہ کیوں نہیں لکھا حالم؟ میں نے دس سال دس کتابیں لکھی ہیں پاکستان پہ جن میں سے ایک کا نصف حصہ ترکی پہ تھا۔ باقی سب میں نے پاکستان پہ ہی لکھا ہے تو اگر آپ نے میرا پاکستانی کام پڑھنا ہے تو کئی کلو کی کتابیں پہلے ہی موجود ہیں۔ اور آئیندہ بھی آتی رہیں گی ان شاء اللہ۔ لیکن اگر آپ نے بریانی اور چائینیز چاولوں کا موازنہ کرنا ہے تو یہ ایک غلط موازنہ ہوگا کیونکہ دونوں کا ذائقہ بالکل الگ ہے مگر دونوں ایک دوسرے سے کم نہیں ہوتے۔
حالم ملائیشیا پہ کیوں لکھا؟ آپ کو کس نے کہا کہ حالم ملائیشیاء پہ لکھا گیا ہے؟ یہ تو ہر دوسرے ملک کی کہانی ہے۔ بلکہ جیسے ہی آپ اس حصے پہ پہنچیں گے جہاں تالیہ کے خواب سچ ہونے لگیں گے‘ تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سارا ناول علامتی ہے۔ ہر چیز علامتی ہے۔ مگر میں سیاست کے ناول کو پاکستان پہ اس لیے نہیں لکھ سکتی تھی کہ پھر ریڈرز نے سیاسی جانبداری کا الزام لگانا تھا۔ جس کو جو سیاستدان پسند ہوتا وہی ہیرو ہوتا اور مخالف ولن۔ اس لیے میں نے ایک ایسے ملک کا انتخاب کیا جہاں کے حالات ہمارے جیسے اصل میں نہ بھی ہوں لیکن اس میں اور کم و بیش تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ابھی بھی جو سیاسی کردار میں نے لکھے ہیں... جی نہیں‘ وہ کوئی جسٹن ٹروڈو‘ یا طیب اردگام یا مہاتیر یا عمران خان نہیں ہیں۔ میں نے مختلف سیاسی کرداروں کو مختلف رنگوں سے پینٹ کیا ہے اور اگر آپ کوکوئی مماثلت نظر آتی بھی ہے تو وہ اتفاقیہ بھی ہو سکتی ہے یا پھر اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنا پہ بھی ہو سکتی ہے۔
’’سیاست پہ ناول کچھ خشک نہیں ہو جائے گا؟ سب کو سیاست میں دلچسپی نہیں ہوتی۔‘‘
دیکھیں۔ ایک بات یاد رکھیں۔ میں اور آپ ٹائی ٹینک کے فرسٹ کلاس میں بیٹھے ہیں اور یہ ڈوب رہا ہے۔ جب یہ ڈوبے گا نا‘ تو اس کی ساری کلاسسز پانی میں غرق ہوجائیں گی۔ جو یہ کہتا ہے کہ اسے سیاست میں دلچسپی نہیں وہ ایسا شخص ہے جو ڈوبتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے پانی میں دلچسپی نہیں۔ آپ کو پانی سے عشق نہیں کرنا‘ نہ آپ کو پانی کا فارمولہ یاد کروانا چاہتی ہوں میں۔ میں صرف آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس ٹائی ٹینک کے آگے جو برف کا پہاڑ کھڑا ہے اسے لوگ کیسے کھڑا کرتے ہیں اور ہم نے اس ڈوبتے وقت میں کیا کرنا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ حالم کو پڑھنے میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو زیادہ مزا تب آتا جب حالم ایک ہینڈسم اور مغرور انویسٹی گیٹر ہوتا اور اس نے ایک معصوم پاکستانی لڑکی تالیہ سے غلط کام کروا کے اس کے اوپر اتنا بوجھ ڈالا ہوتا اور دونوں کی کہانی کا آغاز ہوتا۔ آپ یہ پڑھنا چاہتے ہیں ‘ میں جانتی ہوں۔ مگر میں آپ کو وہ پڑھانا چاہتی ہوں جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ لوگوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ان کی ضرورت کیا ہے جب تک آپ ان کے سامنے یہ ثابت کر کے نہیں دکھاتے۔ مجھے معلوم ہے میں بہت بڑا رسک لے رہی ہوں ۔ایک سوپر نیچرل اور وہ بھی سیاسی ناول لکھ کے لیکن مجھے اس کام پہ اتنا اعتماد ہے تو اس رسک کو لے رہی ہوں نا۔ مجھے اس علامتی کہانی کے پلاٹ میں اتنی جان لگ رہی ہے تو اس کو لکھ رہی ہوں نا۔
اب ایک سوال بلکہ ایک مشاہدہ جس کے بغیر یہ نشست ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ یہ ہے کہ ’’ نمرہ نے حالم کس غیر ملکی کام سے چرا کے لکھا ہے؟‘‘ ٹھہریں۔ پہلے مجھے ہنس لینے دیں۔ خیر... جیسے ہی نمرہ کا ناول شروع ہوتا ہے‘ ایک اینٹی فین طبقہ فوراََ گوگل کھولتا ہے‘ کتابیں کھولتا ہے‘ دوستوں کزنز سے رابطے ہوتے ہیں کہ آخری ڈرامہ‘ آخری ناول کون سا ایسا پڑھا تھا جس میں ہیروئن نے سرخ جوتے پہنے ہوں کیونکہ نمرہ کی ہیروئن نے بھی سرخ جوتے پہنے تھے؟ اچھا نہیں‘ اورنج جوتے تھے؟ کوئی بات نہیں۔ ہم نے تو فیس بک پہ ایک پوسٹ پھینک کے الزام ہی تو لگانا ہے‘ کون سا کسی نے وہ ڈرامہ یا ناول پڑھ کے چیک کر لینا ہے‘ بے وقوف عوام کے پاس چیک کرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ صرف یقین کرنے کا ہوتا ہے۔ بس ناول کا نام بتاؤ۔وغیرہ وغیرہ۔ میں دس سال سے لکھ رہی ہوں‘ اور جیسے اسٹیفن کنگ کہتے ہیں کہ ہمارے پہلے کام میں ہمارے پسندیدہ لکھاریوں کی چھاپ ہمیشہ رہتی ہے ۔ پھر اس کے بعد آپ اپنا اسٹائل دریافت کر لیتے ہیں۔مگر مجھے نہیں یاد کہ ایک دفعہ جب میں نے اپنے اسٹائل کو دریافت کر لیا تو میرے کام میں کسی پسندیدہ لکھاری کی چھاپ تک آئی ہو۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ جب آپ کو تنقید کرنے کے لیے کوئی اور پوائنٹ نہیں ملے تو آپ یا تو نقل کہہ دو یا فتویٰ لگا دو۔ یہ ایک بڑا مزیدار رویہ ہے۔ اس کے مطابق‘ پاکستان کی وہ لاکھوں عوام جو نمرہ کو پڑھتی ہے وہ دراصل بے وقوف اور کم علم ہے‘ نہ اس نے کبھی انگریزی کتاب پڑھی ہے نہ غیر ملکی فلم اور ڈرامہ دیکھا ہے‘ ان کو تو پتہ ہی نہی ہے کہ یہ رائٹر اوور ریٹڈ ہے‘ اصل میں فلاں اور فلاں جگہ سے اٹھا کے لکھتی ہے۔ اور پتہ کن کو ہے؟ ایک چھوٹے سے طبقے کو۔ میں عموماََ ان باتوں کو نظر انداز کرتی ہوں کیونکہ جو مجھے نقالی کا کہتے تھے آج وہ اپنے پیجز پہ میری ہی ٹیم کے آئیڈیاز کی نقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کارما‘ یو نو۔ لیکن خیر...کچھ وضاحتیں ضروری ہوتی ہیں۔
جیسے ہی حالم آیا‘ مجھے معلوم تھا کیا ہوگا۔ کسی نے کہا یہ دھوم فلم میں بھی ایسا ہوا تھا (مجھے فوراََ معلوم ہو گیا کہ یہ قاری دیسی اور انڈین سے زیادہ کچھ نہیں دیکھتیں) کسی نے انگریزی ناولز کی مثال دی‘ کسی نے فائنل ڈیسٹینیشن کہا‘ جس کا حالم سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا (آپ کو فوراََ سمجھ آ جاتا ہے کہ انہوں نے کس لیول ل کی انگریزی فلمیں دیکھ رکھی ہیں) کسی نے انگریزی ڈراموں کی مثال دی اور جو ان سے بھی زیادہ شوقین ہیں انہوں نے کورین کی۔ یعنی جس نے جتنا دیکھا ہے ‘ وہ اتنی ہی دور کی مثال سامنے لائے گا۔ (ابھی تک ہسپانوی‘ روسی یا لاطینی امریکی ڈراموں کی مثال نہیں آئی ۔ وہ بھی بہت سوپر نیچرل ہوتے ہیں۔) اور اس میں کوئی برا منانے والی بات نہیں ہے۔ سچے خواب دیکھنا یا وژن دیکھنا دنیا کی سب سے خوبصورت کہانی (قصہ ء یوسف) میں بھی تھا۔ اور یہ دنیا کے ہر ادب میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ چونکہ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں اور ہمارے ہاں ادب بھی دوسرے شعبوں کی طرح اتنا پھل پھول نہیں سکا جتنا ترقی یافتہ ممالک میں ہو چکا ہے‘ تو ہمارے تھیم اور پلاٹ بھی محدود ہی رہے ہیں۔ جو ملک ترقی کر گئے‘ ان کو انصاف‘ صحت اور غربت جہالت وغیرہ کے معاملے میں سکون حاصل ہو گیا انہوں نے آرٹس اور اس سے متعلقہ چیزوں پہ کام شروع کیا‘ محنت کی اور ان کی محدودیت کو ختم کیا۔ گورے سب سے آگے نکل گئے۔ فرانس‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ روس...ان لوگوں نے عرصے سے ان تھیمز پہ کام شروع کر دیا۔ ان تھیمز پہ اب تک دنیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ آپ کو دنیا کا کوئی ناول بشمول پاکستانی ڈائجسٹ ناولز کے ایسا نہیں ملے گا جس میں کچھ ایسا لکھا گیا ہو جو اس سے پہلے نہ لکھا گیا ہو۔ مجھے ایک رائٹر دکھا دیں جس کے کام میں ایک بھی چیز پرانی نہ ہو‘ میں آج لکھنا چھوڑ دوں گی۔ مگر اس سورج کے نیچے کچھ نیا نہیں ہے۔ سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہمیں صرف اپنے انداز سے نئے طریقے سے لکھنا ہوتا ہے اور عموماََ میں ان تھیمز پہ لکھتی ہوں جن کو بین الاقوامی ادب میں زیادہ لکھا جاتا ہے‘ جو محدودیت کا شکار نہیں ہوتیں ‘ تو میرے کام پہ محدود سوچ رکھنے والے ’’انگریزی فلموں کی طرح‘‘ کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں۔کوئی بات نہیں۔ میں اس کو اپنی تعریف سمجھتی ہوں کیونکہ اس کا مطلب ہے میں بین الاقوامی درجے کا لکھ رہی ہوں۔ اب جب میں نے سوپر نیچرل تھیم پہ لکھا‘( حالم کے دو سوپر نیچرل تھیمز ہیں‘ ایک سچے خواب اور دوسرا میں ابھی نہیں بتا سکتی‘ ) ان دونوں پہ دنیا جہان میں لکھا جا چکا ہے اور بہت فلمیں ڈرامے بن چکے ہیں میری قوم کے سیانے نقادو ! آپ نے جس جس کا نام لیا‘ وہ اس موضوع پہ بننے والا پہلا ڈرامہ نہیں تھا نہ آخری ہوگا۔ہو سکتا ہے آپ نے اس موضوع پہ صرف ایک یا دو چیزیں دیکھ رکھی ہوں۔ مگر عوام کی ایک بڑی تعداد نے بہت سی دیکھ رکھی ہیں اسی لیے وہ بڑی تعداد کھلے ذہن سے مجھے پڑھتی ہے اور کنارے نہیں ملاتی۔ اب میرے پاس دو آپشن ہیں۔
پہلا‘ میں یہ سمجھ لوں کہ میں ایک غریب اور چھوٹے ملک سے تعلق رکھتی ہوں اور یہ بین الاقوامی ٹاپک میرے بس کی بات نہیں ہیں‘ میرے ہی ملک کے لوگ ہیری پوٹر کو انجوائے کر سکتے ہیں مگر چونکہ میں اردو میں لکھتی ہوں تو میں شرم اور احساسِ کمتری سے اس چیز سے پیچھے رہوں کیونکہ لوگ کہیں گے میں گوروں کی نقالی کر رہی ہوں۔
لیکن جب کورین لوگوں نے سوپر نیچرل ڈرامے بنانے شروع کیے جو ان سے پہلے گورے بہت بنا چکے تھے‘ تو کورین عوام نے تو اپنے رائٹرز کو یہ نہیں کہا کہ تمہارا Healer میں جو ہیرو ایک جزیرے کی بات کرتا ہے وہی ڈائیلاگ امریکی ’’وائٹ کالر‘‘ میں نیل کیفری بولا کرتا تھا‘ کیونکہ کورین عوام کا ظرف بڑا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ وائٹ کالر کے نیل کیفری کا تانہ بانہ ’’ لیوریج‘‘ کے ہیرو سے ملتا ہے اور ایک سے ایک کڑیاں جوڑتے جاؤ تو سڈنی شیلڈن کے برسوں پہلے لکھے گئے کردار ایک چور لڑکی ٹریسی کی باتوں اور اس کی ایک آخری چوری کرنے کی خواہش تک آپ پہنچ جائیں گے۔جس ناول میں بھی چور ہیرو یا ہیروئن ہوگا‘ وہ اسی خواہش کے ساتھ جی رہا ہو گا کہ اس کو ایک آخری کام کرنا ہے پھر وہ اس کو چھوڑ دے گا۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے‘ یہی ہر رائٹر کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ جب لاطینی امریکی‘ ہسپانوی اور روسی سوپر نیچرل بنانے لگے تو ان کی قوموں نے ان کو نہیں روکا یہ کہہ کر کہ گورے یہ سب بنا چکے ہیں۔ بلکہ ا ن کے لوگوں نے ان کو چانس دیا۔ کہ یہ اسی تھیم کے ساتھ کیا مختلف کر کے دکھاتے ہیں۔ یہ اسی انڈے‘ میدے اور چینی کے ساتھ کیسا نیا کیک بنا کے دکھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ہر ٹاپک پہ لکھا جا چکا ہے‘ ہم نے صرف اس کو نئے انداز سے لکھنا ہوتا ہے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ میں بہادر بنوں اور ایک اچھی اسٹوری اور مضبوط کرداروں سے مزین ایک ناول لکھ ڈالوں۔ بین الاقوامی اسٹائل کی بات کریں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ گوروں کی تھیم لو گے تو آپ اتنا اچھا بھی لکھو گے۔ آپ پاکستان میں بننے والی تازہ ترین نئی فلموں کی مثال لے لیں۔ سب نہیں ‘ مگر اکثریت بہترین گلیمر‘ انگریزی‘ اسلحے اور مغربی لباس سے مزین ہونے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود بھی مزیدار کیوں نہیں ہوتیں؟ کیوں ہم دیکھتے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بالکل انگریزی یا انڈین کی کاپی تھی‘ مزہ نہیں آیا۔ کیونکہ ان کو بنانے والوں نے اپنے کرداروں اور کہانی پہ اتنی محنت نہیں کی ہوتی جتنی ڈیمانڈ تھی۔کردار مضبوط نہیں ہوتے۔ کہانی میں کچھ نیا نہیں ہوتا۔ اب میں ایک پولیٹیکل تھرلر لکھ رہی ہوں۔ اور مجھے اپنے کرداروں کو اتنا یا اس سے زیادہ پر اثر رکھنا ہے جتنا بین الاقوامی طرز کے ڈرامے یا ناول کے کردار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کو اس میں کسی بھی غیر ملکی چیز کی جھلک نہ آئے۔ ضرور آئے گی۔ لیکن یہ یاد رکھئے کہ یہ چیز اس سے پہلے بھی بہت سے ڈراموں اور فلموں میں آ چکی ہو گی۔ اس لیے میرے پیارے اینٹی فینز کو اتنی محنت کر کے کنارے ملانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اتنے کناروں سے دنیا کا کوئی ناول پاک نہیں۔
اور مجھے اس چیز کی بھی خوشی ہے کہ ہمارے لوگ ایسے بے وقوف نہیں جیسا ان کو یہ طبقہ سمجھتا ہے۔ وہ وہ ممبرز جن کو میں جانتی تک نہیں ‘ وہ مختلف فورمز پہ اچانک سے کسی ڈرامے یا ناول کا نام اچھال دینے والوں کے پاس اسی ڈرامے یا ناول کی پوری کہانی لے کر پہنچ جاتے ہیں اور دلائل سے سمجھاتے ہیں کہ اس کی تو ساری کہانی ہی فرق ہے لیکن کوئی بات نہیں‘ اگر آپ نے زندگی میں ایک دو ہی بین الاقوامی ڈرامے دیکھے ہیں تو ذہن کو کھلا کریں‘ یہ چیز تو ہر دوسرے شو میں ہوتی ہے۔
ہمیشہ ایک بات یاد رکھیے گا۔ دل پہ وہی چیز اثر کرتی ہے جو دل سے لکھی گئی ہوتی ہے۔ چرا کے لکھی جانے والی چیزوں کو دوام نہیں ملتا۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ ہماری رائٹر نے کیا اتنا ہی ذہین ناول نئے انداز میں لکھا ہے یا نہیں؟ کیونکہ میری تو اتنی thick skin ہو چکی ہے کہ میں ان باتوں کا اثر نہیں لیتی‘ لیکن وہ دوسری رائٹرز جو ان untrodden pathways پہ چلنا چاہتی ہیں‘ وہ ڈی مورلائز ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی چند رائٹرز محدودیت کو توڑنے نکلی ہی ہیں‘ تو ان کو انکرج کریں جیسے کوریا کے لوگوں نے کیا حالانکہ انہوں نے کچھ نیا نہیں بنایا۔ ان کے بعض تھیم تو وہی گھسے پٹے انڈین والے ہیں جیسے یادداشت کھو جانا یا دوسرا جنم۔ (amnesia میں نے بھی استعمال کیا ہے حالم میں۔oops) مگر دنیا کی بہترین تلوار بھی اتنی ہی کار گر ہوتی ہے جتنا ماہر اور مضبوط اس کو چلانے والا ہاتھ ہوتا ہے۔
حالم کے کرداروں سے ہم لوگ کیا ریلیٹ کر پائیں گے؟
جواب : بات سادہ ہے۔ حالم کے مرکزی کردار تین ہی ہیں۔ ایک لڑکی جو بہت جھوٹی ہے۔ بات بات پہ جھوٹ بولتی اور کہانی گھڑ لیتی ہے۔ اور ایسے لوگ ہمارے ہاں ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ہم صرف یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم بھی اتنے جھوٹے ہو سکتے ہیں۔تو ہم نے کیا اپنی اس عادت کو درست کرنا ہے یا نہیں؟ ہم نے جھوٹ کو چھوڑنا اور سچ کو اپنانا ہے یا نہیں؟ میں وائٹ کالر کے انجام سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے آخر میں یہ تاثر دیا کہ اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود ایک جھوٹا اور چور کبھی بھی اچھا نہیں بن سکتا۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے ہر کوئی اچھا ہو سکتا ہے لیکن یہ کتنا مشکل اور کتنا آسان ہے؟ یہ ہم نے حالم میں ڈسکور کرنا ہے۔ دنیا میں چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بہت سچے۔ سچے۔ جھوٹے۔ اور بہت جھوٹے۔ ہم انہی چاروں میں سے ایک ہیں۔ دوسرا کردار وان فاتح کا ہے جو کہ ایک Van Fatih loves Van Fatih قسم کا کردار ہے ۔ اور تیسرا ایک آئیڈیل سچا کردار ایڈم جس کو جھوٹ بولنا بہت دشوار گزرتا ہے۔ یہ تین مختلف لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ ان کی نظر سے دنیا کو ایک مختلف انداز میں دیکھیں گے۔ سارا ناول علامتی ہے۔ بہت سی علامتیں میں آپ کے لیے حل کر دوں گی‘ بہت سوں کو آپ نے خود حل کرنا ہوگا۔ لیکن آپ اس سفر کو انجوائے کریں گے۔ میرے لیے ہیروئن کو چور بنانا بہت کٹھن تھا اور مجھے آخری وقت تک یہ کہا جاتا رہا کہ میں اس کو انویسٹی گیٹر بنا دوں لیکن میں ایسے نہیں کر سکتی تھی۔ آپ دوسروں کی خواہشات پہ نہیں لکھ سکتے کیونکہ اس سے کام کا وہ passion چلا جاتا ہے جس کے لیے آپ لکھ رہے ہوتے ہو۔ میں ہر چیز پہ کمپرو مائیز کر سکتی ہوں‘ میں اپنے اس مقصد پہ کمپرومائیز نہیں کر سکتی جس کے لیے میں لکھ رہی ہوتی ہوں۔ اسی لیے مجھے حالم کے سلسلے میں ایک ضروری اعلان کرنا ہے جو میں کچھ دنوں میں کروں گی۔آج کے لیے اتنا بہت تھا۔
کیا حالم میں کوئی ہیرو ہیروئن ہے؟ جواب : چلیں جی...کیسے نہیں ہے؟ تینوں اقساط پھر سے پڑھیں۔ ہیرو بھی ہے‘ ہیروئن بھی ہے‘ اور بہت سارے ولن بھی۔ حالم کے بارے میں آخرمیں میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ انسان کسی بھی کام کے لیے صرف کوشش کر سکتا ہے اور محنت۔ کامیابی اللہ دیتا ہے۔ کامیابی کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ جو اس موضوع کا حق ہے وہ میں ادا کر سکوں۔ اس کی کامیابی کے لیے آپ دعا کیجئے گا۔ تعریف اور تنقید دونوں کرتے رہیے گا۔ میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ میں غیب سے لکھتی ہوں اور مجھے تبصروں سے فرق نہیں پڑتا اور میں ان کو نظر انداز کرتی ہوں۔ سب کو فرق پڑتا ہے۔ میں صرف ان سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اور کام کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر آپ کو کوئی بات نہیں سمجھ آ رہی تو کھل کے اس کا اظہار کیا کیجئے تاکہ وہ آنے والی اقساط کو اشاعت میں دینے سے قبل ان میں ان کی وضاحت کر دی جائے۔ دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
السلام علیکم۔
نمرہ احمد


0 comments:

Post a Comment