Featured post

Who is Nemrah Ahmed ?

"Nemrah Ahmed, an internationally acclaimed Pakistani novelist with ten books on her record. Nemrah Ahmed or Nimra Ahmed is one o...

Haalim Episode No.1

Click here to download :

Download Haalim Episode 1 PDF file
like us on facebook


حالم کا مطلب ہے خواب دیکھنے والا۔ 
Visionary۔ یہ خواب جاگتی آنکھوں والے بھی ہو سکتے ہیں جیسے اقبال کا خواب تھا۔ یا دوسرے بھی ہو سکتے ہیں جو لوگ سوتے اور جاگتے دونوں میں خوابوں اور وژن کی صورت میں دیکھتے ہیں۔
حالم بنیادی طور پہ ایک سوپر نیچرل ایڈونچر فینٹیسی ہے‘ اور سب سے بڑھ کے یہ ایک پولیٹیکل تھرلر ہے۔ اس کا یونرا genre سوپر نیچرل یعنی مافوق الفطرت ہے‘ جس میں ایڈونچر بھی ہے اور مسٹری بھی اور اس کا تھیم سیاسی ہے چاہے وہ ملکی سیاست ہو یا آفس پولیٹکس۔ نمل جیسے فیملی کے گرد گھومتا تھا‘ حالم کولیگز ‘ دوستوں اور ٹیم ورک کے درمیان گھومتا ہے۔
اب آج آپ نے ایک بات کو اچھے سے سمجھ لینا ہے کہ سوپر نیچرل ہوتا کیا ہے۔ کیونکہ کچھ قارئین نے حالم پڑھنے نے کے بعد کہا کہ یہ غیر حقیقی ہے۔ جبکہ میرے ساتھ تین دفعہ آپ( ابھی نہیں‘ ناول ختم ہونے کے بعد ) دہرائیں گے ان شاء اللہ کہ سال 2017 میں آپ کو حالم سے زیادہ حقیقت پہ مبنی ناول نہیں ملے گا۔ حالم غیر فطری نہیں‘ فطرت سے اوپر ہے۔ ان دونوں میں فرق ہوتا ہے اور میں یہ فرق ایک مثال سے آپ کو سمجھاتی ہوں۔

آپ ہیری پوٹر کی مثال لے لیں۔۔۔ نہیں نہیں توبہ استغفراللہ وہ تو کافروں کا تھا...سوری... اپنے حلال سوپر نیچرل’’ عینک والا جن‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ اس میں ایک سین تھا جب نستور جن کے پاس ایک سلیمانی انگوٹھی ہوتی ہے جو جب تک وہ پہنے رکھے گا کوئی شیطانی قوت اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی۔ ایسے میں وہ ایک ایسی وادی پہنچتا ہے جہاں زیبا شہناز جو کہ ایک چڑیل تھیں‘ ایک بڑھیا کا روپ دھارے کنویں میں بیٹھی تھی۔ اب اس نے نستور کو مارنا تھا مگر چونکہ نستور نے سلیمانی انگوٹھی پہن رکھی تھی تو وہ اس سے اداکاری کرتے ہوئے رو رو کے کہتی ہے کہ اس کو کنویں سے آزادی تب ملے گی جب نستور یہ انگوٹھی اس کے سر پہ رکھے گا۔ اور نستور ٹھہرا سدا کا ہیرو۔(ویسے کیا کردار تھا وہ بھی۔) وہ انگوٹھی اتار کے چڑیل کے سر پہ رکھ دیتا ہے بھلے ہم دیکھنے والوں کی سانسیں بند ہو جائیں۔ یوں جیسے ہی اس کو انگوٹھی ملتی ہے وہ چڑیل بن جاتی ہے اور نستور کو قید وغیرہ کر لیتی ہے۔ اب چونکہ یہ مافوق الفطرت تھا تو ہر مافوق الفطرت کہانی کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ اگر نستور نے سلیمانی انگوٹھی پہن رکھی ہے تو چونکہ رائٹر نے بتایا ہے کہ اس انگوٹھی کے ساتھ کوئی اسے نقصان نہیں دے سکتا تو بس...اب اسے کوئی نقصان نہیں دے سکتا اور ہم سب اس کو تسلیم کرتے اور انجوائے کرتے ہیں۔یہ ’’مافوق الفطرت‘‘ ہے۔ لیکن اگر وہ یہ دکھاتے کہ انگوٹھی کے باوجود زیبا شہناز ایک دم سے اس پہ کوئی منتر پڑھ کے اس کو قید کر لیتی ہیں اور رائٹر کہتا کہ بھئی جنوں بھوتوں کی کہانی ہے اس میں سب ممکن ہے تو یہ ’’غیر حقیقی‘‘ چیز ہوتی اور دیکھنے والا اس پہ ناگواری کا اظہار کرتا اور کہتا یہ کیا؟ ہم سے دھوکہ کیوں ہوا ہے؟ پہلے تو کچھ اور کہا تھا۔ یہ فرق ہے حقیقت سے اوپر کی چیز اور غیر حقیقی چیز میں۔ سوپر نیچرل بھی اتنا ہی حقیقی ہوتا ہے جتنا نیچرل ناول ہوتا ہے۔ بس اس میں کچھ واقعات یا تھیم ایسے ہوں گے جن کی سائینس یا آپ کی عقل تشریح نہیں کر سکتی کہ یہ کیسے ہو گیا۔ بالکل جیسے سائینس یہ نہیں بتا سکی کہ اہرام مصر کیسے بنائے گئے تھے...جنات کی شکلیں کیسی ہوتی ہیں.. .رسول اللہ ﷺ نے جب معراج کا سفر فرمایا تھا تو پیچھے وقت کیسے رک گیا تھا...سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ایک آدمی جس کے پاس کتاب کا علم تھا ہزاروں میل دور سے پلک جھپکتے میں ملکہ سبا کا تخت کیسے لے آیا تھا....یہ ساری سوپر نیچرل حقیقتیں ہیں جو دنیا میں ہوتی ہیں اور جب اس طرح کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں تو اس کو ایک الگ یونرا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو غیر حقیقی نہیں کہا جاتا۔ اس کے کرداروں کے جذبات اور احساسات بھی اتنے ہی حقیقی ہوتے ہیں جتنے نیچرل ناولز کے۔ جادو کی چھڑیاں بھی ہوں سوپر نیچرل میں تو بھی کرداروں کے جذباتی اور معاشرتی مسائل چھڑی گھمانے سے ٹھیک نہیں ہو جاتے۔(کافروں والے ناول کی مثال یاد رکھیں۔)
حالم میں بھی آپ کو دو تین تھیمز بالکل مافوق الفطرت ملیں گی اور آپ نے ان کو ویسے ہی پڑھنا ہے جیسے آپ عینک والے جن کو دیکھتے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے سے نکل کے ’’اس سچوئیشن میں یہ کردار کیا کرتے ہیں‘‘ کی طرف جانا ہے۔ آج دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناولز چاہے وہ ہیری پوٹر ہو‘ ٹوالائٹ ہو یا لارڈ آف دی رنگز‘ ان میں سے اکثریت سوپر نیچرل کی ہی ہے۔ جب تک کہانی دلچسپ ہے نا‘ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ فطری ہے یا مافوق الفطرت ۔ یہاں تک سمجھ آگیا آپ کو؟
اب سوال آتا ہے کہ نمرہ نے اگلا ناول نمل سے اتنا مختلف کیوں لکھا؟
جیسے مصحف‘ پریشے کی زندگی سے مختلف تھا‘...جیسے حیا کی زندگی اور محمل کی زندگیاں فرق تھیں.....اور جیسے نمل کی کہانی پچھلے تمام کام سے مختلف تھی ویسے ہی میں جب بھی لکھتی ہوں‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ پچھلے کام سے ہٹ کے ہو۔ جنت کے پتے کی تکمیل کے بعد مجھے ادارے نے کہا کہ نمرہ اب آپ نئے ناول کا ہیرو بالکل سو فیصد جہان جیسا لکھئے گا۔ میں نے کہا وہ سو فیصد جہان سے مختلف ہی تو لکھنا ہے میں نے کیونکہ مجھے اگر وہی چیز دوبارہ لکھنی ہے تو میں نے اس کو ختم کیوں کیا تھا؟ پارٹ ٹو لکھ ڈالتی! اب یہاں پہ دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو چاہتے ہیں کہ حالم بالکل نمل جیسا ہوتا۔ وہی گھریلو حنین‘ وہی اسلام آباد کی سڑکیں‘ وہی مکالمے مگر یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے اپنے کام کا سوچنا ہے‘ اپنے کام کے ساتھ ایمانداری کرنی ہے۔ میں نے ہر ممکن طور پہ نمل کی پرچھائیں سے بچنا ہے۔۔ دوسری طرح کے لوگ وہ ہیں جو چاہتے ہیں کہ نمرہ کے نئے ناول میں نمل تو کیا کسی دوسرے پرانے ناول کی بھی رتی برابر جھلک نہ آئے۔ بحیثیت انسان میرے لیے یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ کہیں نہ کہیں جھلک آ جاتی ہے اور اٹس اوکے۔ اتنا تو چلتا ہے۔ لیکن جو بات آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مجھے ہر ناول کی پہلی قسط پہ پچھلے ناول کی آخری قسط سے موازنے کا سامنا رہتا ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں ‘ رائٹر نہیں بھولتا۔ اسے یاد ہوتا ہے کہ جنت کے پتے کی پہلی چار پانچ اقساط تک اس کو مصحف کے مقابلے میں بے کار قرار دیا جاتا تھا اور نمل نے روانی نویں قسط کے بعد پکڑی تھی۔ حالم کا مجھے ان سب سے زیادہ جلدی اور اچھا رسپانس ملا ہے کیونکہ مجھے ایک ایک کمنٹ‘ ایک ایک تبصرہ اور ایک ایک تنقید یاد رہتی ہے۔ حالم صفحات کی کمی کے مسئلے کی وجہ سے ابھی آپ زیادہ پڑھ نہیں پائے (اس مسئلے کا بھی آئیندہ ماہ سے ایک بہترین حل نکال لیا ہے‘ اللہ کا کرم ہے) ورنہ آگے جا کر ایک وقت آئے گا جب آپ جانیں گے کہ آپ کو اس سال میں پاکستانی ناولز میں اس سے زیادہ اچھے ناولز تو بہت مل جائیں مگر اس سے زیادہ حقیقت کے قریب ناول کوئی نہیں ملے گا۔
پھر مجھے یہ بھی کہا گیا کہ سوپر نیچرل کی ہماری لڑکیوں کو سمجھ نہیں آئے گی... یو نو... گاؤں دیہات کی لڑکیاں جو بے چاری سی ہوتی ہیں‘ ان کی عقل سے یہ اوپر ہے ۔
میں دس سال سے لکھ رہی ہوں اور میں ایک بات جانتی ہوں کہ میرے قارئین میرے جتنے ذہین نہیں ہیں۔ وہ مجھ سے کہیں زیادہ ذہین اور تیز ہیں۔ وہ اتنی باریکی سے پڑھتے ہیں ‘ ایک ایک بات نوٹ کرتے ہیں کہ اب ان کو گھمانا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اور تو اور ان کو نمرہ کا اتناا عتبار بھی نہیں رہا کہ جس کردار کے لیے میں قسمیں بھی کھا لوں اس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے ایڈم۔ ایڈم پہلے ویسے ایک جن کا کردار تھا جو انسانوں کی دنیا میں آتا ہے۔ مگر میں نے ناول کے سیکنڈ ڈرافٹ میں اسے انسان ہی بنا دیا کیونکہ یہ سب سے خالص اور سچا کھرا کردار ہے اور اس کا انسان بننا انسپائریشنل ہو سکتا تھا۔ (حالم میں سب انسان ہی ہیں‘ کوئی جن نہیں ہے۔یہ نہ ہو اب اس بات کو لے کر سب اندازے لگانے لگ جائیں) تو میرا ماننا یہ ہے کہ جہاں جہاں ڈائجسٹ جاتا ہے وہاں وہاں بے حد سمجھدار لوگ بستے ہیں جو عینک والا جن دیکھ کے بڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے غیر ملکی کہانیاں‘ ڈرامے ‘ فلمیں...سب کچھ دیکھ رکھاہے اور ان کو سوپر نیچرل کی سمجھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی قاری کے منہ سے اس کے اپنے لیے یہ نہیں سنا کہ میں کم ذہن ہوں‘ مجھے سمجھ نہیں آئے گی۔ یہ عموماََ بہت سمجھدار قسم کے اینٹی فینز ہوتے ہیں جو بڑی ہمدردی سے مجھے آ کے کہتے ہیں کہ ہمیں تو آ جائے گی سمجھ مگر دوسری بے چاری لڑکیوں کو نہیں آئے گی۔ تو تسلی رکھیں اور ان دوسری لڑکیوں کی فکر میرے اوپر چھوڑ دیں۔ اگر ان کو سمجھ نہیں بھی آئے گی تو اس میں میری ہی کمی کوتاہی ہوگی‘ ان کی سمجھداری کا قصور نہیں ہو گا۔
اگلا اعتراض یہ تھا کہ اچھا لڑکیوں کو تو آ جائے گی‘ ماؤں کو نہیں آئے گی۔
اچھا واقعی؟ مطلب کہ سارے خاندان میں ماشا ء اللہ لڑائیاں کروا اور سلجھا سکتی ہیں ہماری خواتین... اپنے بچوں کی پیدائش کے کیلنڈر کے حساب سے ایک ایک واقعہ یاد ہوتا ہے ان کو...ایک نظر میں کسی کے گھر کے کونوں کھدروں سے لے کر تاثرات تک دیکھ کے شیرلاک کی طرح اس کے پچھلے ہفتے کی ساری خوشی غمیوں کے اندازے لگا سکتی ہیں‘ مگر ان کو ایک سوپر نیچرل ناول نہیں سمجھ آئے گا؟ واللہ میں یہ نہیں مان سکتی۔ ہماری خواتین کو اتنا کم علم اور کم ذہن نہ میں نے پہلے کبھی سمجھا ہے نہ اب سمجھتی ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اپنی سمجھداری اور کھلے ذہنوں سے وہ ان اینٹی فینز کو غلط ثابت کر کے دکھائیں گی۔
’’پاکستانی عوام سوپر نیچرل کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی ایک نکتہ تھا۔یہی نکتہ حجاب پہ لکھنے یا قرآنی تدبر پہ لکھنے یا پہاڑی کا قیدی لکھنے سے پہلے بھی میرے پاس رکھا گیا تھا اور میں نے تب بھی وہی کہا تھا وہ اب کہتی ہوں۔ دنیا میں جب بھی کوئی untrodden pathways پہ چلتا ہے نا.. تو اس کو لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ایسے راستوں پہ جہاں چلنے سے لوگ کتراتے ہیں.. ان پہ چلنے والے کا پہلے مذاق اڑایا جاتا ہے ....پھر اس کی تحقیر کی جاتی ہے ..... پھر اس سے لڑا جاتا جاتا ہے اور پھر وہ نئے راستوں کا مسافر ...جیت جاتا ہے ! پاکستان میں سوپر نیچرل بہت کم لکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ان ٹروڈن پاتھ وے ہے ۔تو کیامیں تنقید اور مخالفت کے ڈر سے اس کا رخ ہی نہ کروں؟ مگر جس نمرہ کو آپ پڑھتے ہیں اس کو آپ اسی لیے پڑھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ایسے ہی راستے منتخب کرتی ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم روایتی کہانیوں سے نکل کے بین الاقوامی طرز کا لکھیں۔ مگر مجھے یہ بھی اچھا نہیں لگے گا اگر میرا دفاع کرتے ہوئے میرے قارئین کہیں کہ ’’کیا آپ لوگوں کو صرف ساس بہو کی کہانیاں پڑھنی ہیں؟‘‘ نہیں۔ ساس بہو کی کہانیاں ہمیشہ لکھی جاتی رہنی چاہیں تاکہ لوگ ان سے ریلیٹ کرتے رہیں۔ سب کچھ لکھا جانا چاہیے۔ اور سوپر نیچرل بھی ۔مرڈر مسٹری بھی۔ سائنس فکشن بھی۔
پاکستان پہ کیوں نہیں لکھا حالم؟ میں نے دس سال دس کتابیں لکھی ہیں پاکستان پہ جن میں سے ایک کا نصف حصہ ترکی پہ تھا۔ باقی سب میں نے پاکستان پہ ہی لکھا ہے تو اگر آپ نے میرا پاکستانی کام پڑھنا ہے تو کئی کلو کی کتابیں پہلے ہی موجود ہیں۔ اور آئیندہ بھی آتی رہیں گی ان شاء اللہ۔ لیکن اگر آپ نے بریانی اور چائینیز چاولوں کا موازنہ کرنا ہے تو یہ ایک غلط موازنہ ہوگا کیونکہ دونوں کا ذائقہ بالکل الگ ہے مگر دونوں ایک دوسرے سے کم نہیں ہوتے۔
حالم ملائیشیا پہ کیوں لکھا؟ آپ کو کس نے کہا کہ حالم ملائیشیاء پہ لکھا گیا ہے؟ یہ تو ہر دوسرے ملک کی کہانی ہے۔ بلکہ جیسے ہی آپ اس حصے پہ پہنچیں گے جہاں تالیہ کے خواب سچ ہونے لگیں گے‘ تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سارا ناول علامتی ہے۔ ہر چیز علامتی ہے۔ مگر میں سیاست کے ناول کو پاکستان پہ اس لیے نہیں لکھ سکتی تھی کہ پھر ریڈرز نے سیاسی جانبداری کا الزام لگانا تھا۔ جس کو جو سیاستدان پسند ہوتا وہی ہیرو ہوتا اور مخالف ولن۔ اس لیے میں نے ایک ایسے ملک کا انتخاب کیا جہاں کے حالات ہمارے جیسے اصل میں نہ بھی ہوں لیکن اس میں اور کم و بیش تیسری دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ابھی بھی جو سیاسی کردار میں نے لکھے ہیں... جی نہیں‘ وہ کوئی جسٹن ٹروڈو‘ یا طیب اردگام یا مہاتیر یا عمران خان نہیں ہیں۔ میں نے مختلف سیاسی کرداروں کو مختلف رنگوں سے پینٹ کیا ہے اور اگر آپ کوکوئی مماثلت نظر آتی بھی ہے تو وہ اتفاقیہ بھی ہو سکتی ہے یا پھر اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنا پہ بھی ہو سکتی ہے۔
’’سیاست پہ ناول کچھ خشک نہیں ہو جائے گا؟ سب کو سیاست میں دلچسپی نہیں ہوتی۔‘‘
دیکھیں۔ ایک بات یاد رکھیں۔ میں اور آپ ٹائی ٹینک کے فرسٹ کلاس میں بیٹھے ہیں اور یہ ڈوب رہا ہے۔ جب یہ ڈوبے گا نا‘ تو اس کی ساری کلاسسز پانی میں غرق ہوجائیں گی۔ جو یہ کہتا ہے کہ اسے سیاست میں دلچسپی نہیں وہ ایسا شخص ہے جو ڈوبتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے پانی میں دلچسپی نہیں۔ آپ کو پانی سے عشق نہیں کرنا‘ نہ آپ کو پانی کا فارمولہ یاد کروانا چاہتی ہوں میں۔ میں صرف آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اس ٹائی ٹینک کے آگے جو برف کا پہاڑ کھڑا ہے اسے لوگ کیسے کھڑا کرتے ہیں اور ہم نے اس ڈوبتے وقت میں کیا کرنا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ حالم کو پڑھنے میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو زیادہ مزا تب آتا جب حالم ایک ہینڈسم اور مغرور انویسٹی گیٹر ہوتا اور اس نے ایک معصوم پاکستانی لڑکی تالیہ سے غلط کام کروا کے اس کے اوپر اتنا بوجھ ڈالا ہوتا اور دونوں کی کہانی کا آغاز ہوتا۔ آپ یہ پڑھنا چاہتے ہیں ‘ میں جانتی ہوں۔ مگر میں آپ کو وہ پڑھانا چاہتی ہوں جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ لوگوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ان کی ضرورت کیا ہے جب تک آپ ان کے سامنے یہ ثابت کر کے نہیں دکھاتے۔ مجھے معلوم ہے میں بہت بڑا رسک لے رہی ہوں ۔ایک سوپر نیچرل اور وہ بھی سیاسی ناول لکھ کے لیکن مجھے اس کام پہ اتنا اعتماد ہے تو اس رسک کو لے رہی ہوں نا۔ مجھے اس علامتی کہانی کے پلاٹ میں اتنی جان لگ رہی ہے تو اس کو لکھ رہی ہوں نا۔
اب ایک سوال بلکہ ایک مشاہدہ جس کے بغیر یہ نشست ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ یہ ہے کہ ’’ نمرہ نے حالم کس غیر ملکی کام سے چرا کے لکھا ہے؟‘‘ ٹھہریں۔ پہلے مجھے ہنس لینے دیں۔ خیر... جیسے ہی نمرہ کا ناول شروع ہوتا ہے‘ ایک اینٹی فین طبقہ فوراََ گوگل کھولتا ہے‘ کتابیں کھولتا ہے‘ دوستوں کزنز سے رابطے ہوتے ہیں کہ آخری ڈرامہ‘ آخری ناول کون سا ایسا پڑھا تھا جس میں ہیروئن نے سرخ جوتے پہنے ہوں کیونکہ نمرہ کی ہیروئن نے بھی سرخ جوتے پہنے تھے؟ اچھا نہیں‘ اورنج جوتے تھے؟ کوئی بات نہیں۔ ہم نے تو فیس بک پہ ایک پوسٹ پھینک کے الزام ہی تو لگانا ہے‘ کون سا کسی نے وہ ڈرامہ یا ناول پڑھ کے چیک کر لینا ہے‘ بے وقوف عوام کے پاس چیک کرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ صرف یقین کرنے کا ہوتا ہے۔ بس ناول کا نام بتاؤ۔وغیرہ وغیرہ۔ میں دس سال سے لکھ رہی ہوں‘ اور جیسے اسٹیفن کنگ کہتے ہیں کہ ہمارے پہلے کام میں ہمارے پسندیدہ لکھاریوں کی چھاپ ہمیشہ رہتی ہے ۔ پھر اس کے بعد آپ اپنا اسٹائل دریافت کر لیتے ہیں۔مگر مجھے نہیں یاد کہ ایک دفعہ جب میں نے اپنے اسٹائل کو دریافت کر لیا تو میرے کام میں کسی پسندیدہ لکھاری کی چھاپ تک آئی ہو۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ جب آپ کو تنقید کرنے کے لیے کوئی اور پوائنٹ نہیں ملے تو آپ یا تو نقل کہہ دو یا فتویٰ لگا دو۔ یہ ایک بڑا مزیدار رویہ ہے۔ اس کے مطابق‘ پاکستان کی وہ لاکھوں عوام جو نمرہ کو پڑھتی ہے وہ دراصل بے وقوف اور کم علم ہے‘ نہ اس نے کبھی انگریزی کتاب پڑھی ہے نہ غیر ملکی فلم اور ڈرامہ دیکھا ہے‘ ان کو تو پتہ ہی نہی ہے کہ یہ رائٹر اوور ریٹڈ ہے‘ اصل میں فلاں اور فلاں جگہ سے اٹھا کے لکھتی ہے۔ اور پتہ کن کو ہے؟ ایک چھوٹے سے طبقے کو۔ میں عموماََ ان باتوں کو نظر انداز کرتی ہوں کیونکہ جو مجھے نقالی کا کہتے تھے آج وہ اپنے پیجز پہ میری ہی ٹیم کے آئیڈیاز کی نقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کارما‘ یو نو۔ لیکن خیر...کچھ وضاحتیں ضروری ہوتی ہیں۔
جیسے ہی حالم آیا‘ مجھے معلوم تھا کیا ہوگا۔ کسی نے کہا یہ دھوم فلم میں بھی ایسا ہوا تھا (مجھے فوراََ معلوم ہو گیا کہ یہ قاری دیسی اور انڈین سے زیادہ کچھ نہیں دیکھتیں) کسی نے انگریزی ناولز کی مثال دی‘ کسی نے فائنل ڈیسٹینیشن کہا‘ جس کا حالم سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا (آپ کو فوراََ سمجھ آ جاتا ہے کہ انہوں نے کس لیول ل کی انگریزی فلمیں دیکھ رکھی ہیں) کسی نے انگریزی ڈراموں کی مثال دی اور جو ان سے بھی زیادہ شوقین ہیں انہوں نے کورین کی۔ یعنی جس نے جتنا دیکھا ہے ‘ وہ اتنی ہی دور کی مثال سامنے لائے گا۔ (ابھی تک ہسپانوی‘ روسی یا لاطینی امریکی ڈراموں کی مثال نہیں آئی ۔ وہ بھی بہت سوپر نیچرل ہوتے ہیں۔) اور اس میں کوئی برا منانے والی بات نہیں ہے۔ سچے خواب دیکھنا یا وژن دیکھنا دنیا کی سب سے خوبصورت کہانی (قصہ ء یوسف) میں بھی تھا۔ اور یہ دنیا کے ہر ادب میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ چونکہ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں اور ہمارے ہاں ادب بھی دوسرے شعبوں کی طرح اتنا پھل پھول نہیں سکا جتنا ترقی یافتہ ممالک میں ہو چکا ہے‘ تو ہمارے تھیم اور پلاٹ بھی محدود ہی رہے ہیں۔ جو ملک ترقی کر گئے‘ ان کو انصاف‘ صحت اور غربت جہالت وغیرہ کے معاملے میں سکون حاصل ہو گیا انہوں نے آرٹس اور اس سے متعلقہ چیزوں پہ کام شروع کیا‘ محنت کی اور ان کی محدودیت کو ختم کیا۔ گورے سب سے آگے نکل گئے۔ فرانس‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ روس...ان لوگوں نے عرصے سے ان تھیمز پہ کام شروع کر دیا۔ ان تھیمز پہ اب تک دنیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ آپ کو دنیا کا کوئی ناول بشمول پاکستانی ڈائجسٹ ناولز کے ایسا نہیں ملے گا جس میں کچھ ایسا لکھا گیا ہو جو اس سے پہلے نہ لکھا گیا ہو۔ مجھے ایک رائٹر دکھا دیں جس کے کام میں ایک بھی چیز پرانی نہ ہو‘ میں آج لکھنا چھوڑ دوں گی۔ مگر اس سورج کے نیچے کچھ نیا نہیں ہے۔ سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہمیں صرف اپنے انداز سے نئے طریقے سے لکھنا ہوتا ہے اور عموماََ میں ان تھیمز پہ لکھتی ہوں جن کو بین الاقوامی ادب میں زیادہ لکھا جاتا ہے‘ جو محدودیت کا شکار نہیں ہوتیں ‘ تو میرے کام پہ محدود سوچ رکھنے والے ’’انگریزی فلموں کی طرح‘‘ کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں۔کوئی بات نہیں۔ میں اس کو اپنی تعریف سمجھتی ہوں کیونکہ اس کا مطلب ہے میں بین الاقوامی درجے کا لکھ رہی ہوں۔ اب جب میں نے سوپر نیچرل تھیم پہ لکھا‘( حالم کے دو سوپر نیچرل تھیمز ہیں‘ ایک سچے خواب اور دوسرا میں ابھی نہیں بتا سکتی‘ ) ان دونوں پہ دنیا جہان میں لکھا جا چکا ہے اور بہت فلمیں ڈرامے بن چکے ہیں میری قوم کے سیانے نقادو ! آپ نے جس جس کا نام لیا‘ وہ اس موضوع پہ بننے والا پہلا ڈرامہ نہیں تھا نہ آخری ہوگا۔ہو سکتا ہے آپ نے اس موضوع پہ صرف ایک یا دو چیزیں دیکھ رکھی ہوں۔ مگر عوام کی ایک بڑی تعداد نے بہت سی دیکھ رکھی ہیں اسی لیے وہ بڑی تعداد کھلے ذہن سے مجھے پڑھتی ہے اور کنارے نہیں ملاتی۔ اب میرے پاس دو آپشن ہیں۔
پہلا‘ میں یہ سمجھ لوں کہ میں ایک غریب اور چھوٹے ملک سے تعلق رکھتی ہوں اور یہ بین الاقوامی ٹاپک میرے بس کی بات نہیں ہیں‘ میرے ہی ملک کے لوگ ہیری پوٹر کو انجوائے کر سکتے ہیں مگر چونکہ میں اردو میں لکھتی ہوں تو میں شرم اور احساسِ کمتری سے اس چیز سے پیچھے رہوں کیونکہ لوگ کہیں گے میں گوروں کی نقالی کر رہی ہوں۔
لیکن جب کورین لوگوں نے سوپر نیچرل ڈرامے بنانے شروع کیے جو ان سے پہلے گورے بہت بنا چکے تھے‘ تو کورین عوام نے تو اپنے رائٹرز کو یہ نہیں کہا کہ تمہارا Healer میں جو ہیرو ایک جزیرے کی بات کرتا ہے وہی ڈائیلاگ امریکی ’’وائٹ کالر‘‘ میں نیل کیفری بولا کرتا تھا‘ کیونکہ کورین عوام کا ظرف بڑا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ وائٹ کالر کے نیل کیفری کا تانہ بانہ ’’ لیوریج‘‘ کے ہیرو سے ملتا ہے اور ایک سے ایک کڑیاں جوڑتے جاؤ تو سڈنی شیلڈن کے برسوں پہلے لکھے گئے کردار ایک چور لڑکی ٹریسی کی باتوں اور اس کی ایک آخری چوری کرنے کی خواہش تک آپ پہنچ جائیں گے۔جس ناول میں بھی چور ہیرو یا ہیروئن ہوگا‘ وہ اسی خواہش کے ساتھ جی رہا ہو گا کہ اس کو ایک آخری کام کرنا ہے پھر وہ اس کو چھوڑ دے گا۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے‘ یہی ہر رائٹر کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ جب لاطینی امریکی‘ ہسپانوی اور روسی سوپر نیچرل بنانے لگے تو ان کی قوموں نے ان کو نہیں روکا یہ کہہ کر کہ گورے یہ سب بنا چکے ہیں۔ بلکہ ا ن کے لوگوں نے ان کو چانس دیا۔ کہ یہ اسی تھیم کے ساتھ کیا مختلف کر کے دکھاتے ہیں۔ یہ اسی انڈے‘ میدے اور چینی کے ساتھ کیسا نیا کیک بنا کے دکھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ہر ٹاپک پہ لکھا جا چکا ہے‘ ہم نے صرف اس کو نئے انداز سے لکھنا ہوتا ہے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ میں بہادر بنوں اور ایک اچھی اسٹوری اور مضبوط کرداروں سے مزین ایک ناول لکھ ڈالوں۔ بین الاقوامی اسٹائل کی بات کریں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ گوروں کی تھیم لو گے تو آپ اتنا اچھا بھی لکھو گے۔ آپ پاکستان میں بننے والی تازہ ترین نئی فلموں کی مثال لے لیں۔ سب نہیں ‘ مگر اکثریت بہترین گلیمر‘ انگریزی‘ اسلحے اور مغربی لباس سے مزین ہونے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود بھی مزیدار کیوں نہیں ہوتیں؟ کیوں ہم دیکھتے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بالکل انگریزی یا انڈین کی کاپی تھی‘ مزہ نہیں آیا۔ کیونکہ ان کو بنانے والوں نے اپنے کرداروں اور کہانی پہ اتنی محنت نہیں کی ہوتی جتنی ڈیمانڈ تھی۔کردار مضبوط نہیں ہوتے۔ کہانی میں کچھ نیا نہیں ہوتا۔ اب میں ایک پولیٹیکل تھرلر لکھ رہی ہوں۔ اور مجھے اپنے کرداروں کو اتنا یا اس سے زیادہ پر اثر رکھنا ہے جتنا بین الاقوامی طرز کے ڈرامے یا ناول کے کردار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کو اس میں کسی بھی غیر ملکی چیز کی جھلک نہ آئے۔ ضرور آئے گی۔ لیکن یہ یاد رکھئے کہ یہ چیز اس سے پہلے بھی بہت سے ڈراموں اور فلموں میں آ چکی ہو گی۔ اس لیے میرے پیارے اینٹی فینز کو اتنی محنت کر کے کنارے ملانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اتنے کناروں سے دنیا کا کوئی ناول پاک نہیں۔
اور مجھے اس چیز کی بھی خوشی ہے کہ ہمارے لوگ ایسے بے وقوف نہیں جیسا ان کو یہ طبقہ سمجھتا ہے۔ وہ وہ ممبرز جن کو میں جانتی تک نہیں ‘ وہ مختلف فورمز پہ اچانک سے کسی ڈرامے یا ناول کا نام اچھال دینے والوں کے پاس اسی ڈرامے یا ناول کی پوری کہانی لے کر پہنچ جاتے ہیں اور دلائل سے سمجھاتے ہیں کہ اس کی تو ساری کہانی ہی فرق ہے لیکن کوئی بات نہیں‘ اگر آپ نے زندگی میں ایک دو ہی بین الاقوامی ڈرامے دیکھے ہیں تو ذہن کو کھلا کریں‘ یہ چیز تو ہر دوسرے شو میں ہوتی ہے۔
ہمیشہ ایک بات یاد رکھیے گا۔ دل پہ وہی چیز اثر کرتی ہے جو دل سے لکھی گئی ہوتی ہے۔ چرا کے لکھی جانے والی چیزوں کو دوام نہیں ملتا۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ ہماری رائٹر نے کیا اتنا ہی ذہین ناول نئے انداز میں لکھا ہے یا نہیں؟ کیونکہ میری تو اتنی thick skin ہو چکی ہے کہ میں ان باتوں کا اثر نہیں لیتی‘ لیکن وہ دوسری رائٹرز جو ان untrodden pathways پہ چلنا چاہتی ہیں‘ وہ ڈی مورلائز ہوتی ہیں۔ اگر آپ کی چند رائٹرز محدودیت کو توڑنے نکلی ہی ہیں‘ تو ان کو انکرج کریں جیسے کوریا کے لوگوں نے کیا حالانکہ انہوں نے کچھ نیا نہیں بنایا۔ ان کے بعض تھیم تو وہی گھسے پٹے انڈین والے ہیں جیسے یادداشت کھو جانا یا دوسرا جنم۔ (amnesia میں نے بھی استعمال کیا ہے حالم میں۔oops) مگر دنیا کی بہترین تلوار بھی اتنی ہی کار گر ہوتی ہے جتنا ماہر اور مضبوط اس کو چلانے والا ہاتھ ہوتا ہے۔
حالم کے کرداروں سے ہم لوگ کیا ریلیٹ کر پائیں گے؟
جواب : بات سادہ ہے۔ حالم کے مرکزی کردار تین ہی ہیں۔ ایک لڑکی جو بہت جھوٹی ہے۔ بات بات پہ جھوٹ بولتی اور کہانی گھڑ لیتی ہے۔ اور ایسے لوگ ہمارے ہاں ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ہم صرف یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم بھی اتنے جھوٹے ہو سکتے ہیں۔تو ہم نے کیا اپنی اس عادت کو درست کرنا ہے یا نہیں؟ ہم نے جھوٹ کو چھوڑنا اور سچ کو اپنانا ہے یا نہیں؟ میں وائٹ کالر کے انجام سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے آخر میں یہ تاثر دیا کہ اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود ایک جھوٹا اور چور کبھی بھی اچھا نہیں بن سکتا۔ میں اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے ہر کوئی اچھا ہو سکتا ہے لیکن یہ کتنا مشکل اور کتنا آسان ہے؟ یہ ہم نے حالم میں ڈسکور کرنا ہے۔ دنیا میں چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بہت سچے۔ سچے۔ جھوٹے۔ اور بہت جھوٹے۔ ہم انہی چاروں میں سے ایک ہیں۔ دوسرا کردار وان فاتح کا ہے جو کہ ایک Van Fatih loves Van Fatih قسم کا کردار ہے ۔ اور تیسرا ایک آئیڈیل سچا کردار ایڈم جس کو جھوٹ بولنا بہت دشوار گزرتا ہے۔ یہ تین مختلف لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ ان کی نظر سے دنیا کو ایک مختلف انداز میں دیکھیں گے۔ سارا ناول علامتی ہے۔ بہت سی علامتیں میں آپ کے لیے حل کر دوں گی‘ بہت سوں کو آپ نے خود حل کرنا ہوگا۔ لیکن آپ اس سفر کو انجوائے کریں گے۔ میرے لیے ہیروئن کو چور بنانا بہت کٹھن تھا اور مجھے آخری وقت تک یہ کہا جاتا رہا کہ میں اس کو انویسٹی گیٹر بنا دوں لیکن میں ایسے نہیں کر سکتی تھی۔ آپ دوسروں کی خواہشات پہ نہیں لکھ سکتے کیونکہ اس سے کام کا وہ passion چلا جاتا ہے جس کے لیے آپ لکھ رہے ہوتے ہو۔ میں ہر چیز پہ کمپرو مائیز کر سکتی ہوں‘ میں اپنے اس مقصد پہ کمپرومائیز نہیں کر سکتی جس کے لیے میں لکھ رہی ہوتی ہوں۔ اسی لیے مجھے حالم کے سلسلے میں ایک ضروری اعلان کرنا ہے جو میں کچھ دنوں میں کروں گی۔آج کے لیے اتنا بہت تھا۔
کیا حالم میں کوئی ہیرو ہیروئن ہے؟ جواب : چلیں جی...کیسے نہیں ہے؟ تینوں اقساط پھر سے پڑھیں۔ ہیرو بھی ہے‘ ہیروئن بھی ہے‘ اور بہت سارے ولن بھی۔ حالم کے بارے میں آخرمیں میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ انسان کسی بھی کام کے لیے صرف کوشش کر سکتا ہے اور محنت۔ کامیابی اللہ دیتا ہے۔ کامیابی کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ جو اس موضوع کا حق ہے وہ میں ادا کر سکوں۔ اس کی کامیابی کے لیے آپ دعا کیجئے گا۔ تعریف اور تنقید دونوں کرتے رہیے گا۔ میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ میں غیب سے لکھتی ہوں اور مجھے تبصروں سے فرق نہیں پڑتا اور میں ان کو نظر انداز کرتی ہوں۔ سب کو فرق پڑتا ہے۔ میں صرف ان سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اور کام کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر آپ کو کوئی بات نہیں سمجھ آ رہی تو کھل کے اس کا اظہار کیا کیجئے تاکہ وہ آنے والی اقساط کو اشاعت میں دینے سے قبل ان میں ان کی وضاحت کر دی جائے۔ دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
السلام علیکم۔
نمرہ احمد


1 comments:

laiba sana said...

episode 7 nd 11 ni mil ri......plzzz help kryn....ye 2no episodes ko available kryn plzzzz plzzzz

Post a Comment